ضعف اور مشقت کی حالت میں روزہ نہ رکھنا ہی مسافر کے لیے بہتر ہے

وعن جابر قال : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم في سفر فرأى زحاما ورجلا قد ظلل عليه فقال : " ما هذا ؟ " قالوا : صائم . فقال : " ليس من البر الصوم في السفر "-
حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حالت سفر میں تھے کہ ایک جگہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجمع دیکھا اور ایک شخص کو دیکھا جس پر دھوپ سے بچاؤ کے لئے سایہ کیا گیا تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے ؟ انہوں نے کہا یہ شخص روزہ دار ہے جو ضعف کی وجہ سے گر پڑا ہے آپ نے فرمایا سفر کی حالت میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے۔ (بخاری ومسلم) تشریح حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ اگر روزہ رکھنے کی صورت میں ضعف و نا تو انی کی وجہ سے روزہ دار کی اتنی خستہ حالت ہو جائے تو اس کے لیے سفر میں روزہ رکھنا کوئی زیادہ بہتر بات نہیں ہے۔ بلکہ افضل اور اولیٰ یہی ہے کہ وہ روزہ نہ رکھے۔
-
وعن أنس قال : كنا مع النبي صلى الله عليه و سلم في السفر فمنا الصائم ومنا المفطر فنزلنا منزلا في وم حار فسقط الصوامون وقام المفطرون فضربوا الأبنية وسقوا الركاب . فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " ذهب المفطرون اليوم بالأجر "-
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک مرتبہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ سفر میں تھے ہم میں سے کچھ لوگ تو روزہ دار تھے اور کچھ لوگ بغیر روزہ کے تھے، جب ہم ایک منزل پر اترے تو گرمی کا دن تھا جو لوگ روزہ سے تھے وہ تو گر پڑے ( یعنی ضعف و نا تو انی کی وجہ سے کسی کام کے لائق نہیں رہے) اور جو لوگ روزہ سے نہیں تھے وہ مستعد رہے (یعنی اپنے کام کاج میں مشغول ہو گئے) چنانچہ انہوں نے خیمے کھڑے کئے اور اونٹوں کو پانی پلایا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ دیکھ کر فرمایا کہ روزہ نہ رکھنے والوں نے آج ثواب کا میدان جیت لیا۔ (بخاری ومسلم) تشریح یعنی جن لوگوں نے آج روزہ نہیں رکھا زیادہ کامل ثواب انہیں لوگوں کے حصہ میں آیا کیونکہ ایسے وقت میں ان کے لیے روزہ نہ رکھنا ہی بہتر تھا۔ لفظ الیوم سے اس طرف اشارہ ہے کہ روزہ نہ رکھنے کی یہ فضیلت روزہ داروں کی خدمت گاری کی وجہ سے حاصل ہوئی نہ کہ مطلقاً نیز یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ خدا کے نیک و صالح بندوں کی خدمت نوافل سے افضل ہے۔
-