صف برابر رکھنے کا حکم

عَنِ النُّعْمَانِِ بْنِ بَشِےْرٍص قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ےُسَوِّیْ صُفُوْفَنَا حَتّٰی کَاَنَّمَا ےُسَوِّیْ بِھَا الْقِدَاحَ حَتّٰی رَاٰی اَنَّا قَدْ عَقَلْنَا عَنْہُ ثُمَّ خَرَجَ ےَوْمًا فَقَامَ حَتّٰی کَادَ اَنْ ےُّکَبِّرَ فَرَاٰی رَجُلًا بَادِےًا صَدْرُہُ مِنَ الصَّفِّ فَقَالَ عِبَادَاللّٰہِ لَتُسَوُّنَّ صُفُوْفَکُمْ اَوْلَےُخَالِفَنَّّ اللّٰہُ بَےْنَ وُجُوْھِکُمْ۔(صحیح مسلم)-
" حضرت نعمان ابن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری صفیں (اس طرح) برابر (سیدھی) کیا کرتے تھے کہ گویا تیر بھی ان صفوں سے سیدھا کیا جا سکتا تھا یہاں تک کہ ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے (صفوں کی برابر کرنے کی اہمیت) سمجھ گئے۔ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (مکان سے نکل کر) تشریف لائے اور (نماز کے لیے ) کھڑے ہوگئے اور تکبیر (تحریمہ ) کہنے ہی کو تھے کہ ایک آدمی کا سینہ صف سے کچھ نکلا ہوا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھ لیا چنانچہ (یہ دیکھ کر ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " اے اللہ کے بندو! اپنی صفیں سیدھی کر دو ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے درمیان اختلاف ڈال دے گا۔ (صحیح مسلم) تشریح عرب میں تیر کی ہمواری اور سیدھا پن اس قدر مشہور تھا کہ دوسری چیزوں کے سیدھے پن اور ہمواری کو بھی تیر سے تشبیہ دیا کرتے تھے اس طرح گویا تیر بھی ان صفوں سے سیدھا کیا جاتا تھا ۔" یہ جملہ کسی چیز کی ہمواری اور سیدھے پن کے لیے مثل کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ تیروں کے ذریعہ دوسری چیزوں کو سیدھا اور برابر کرتے ہیں اور یہاں یہ مبالغے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے کہ صفیں اس قدر سیدھی اور ہموار ہوتی تھیں کہ تیر بھی ان کے ذریعہ سیدھے کئے جا سکتے تھے، بعض حضرات فرماتے ہیں کہ یہ عبارت اپنے عکس پر محمول ہے لہٰذا اس کا مطب یہ ہے کہ گویا صفیں تیروں کے ذریعہ برابر کرتے تھے" حدیث کے آخری جملے کا مطلب مولانا مظہر نے یہ بیان کیا ہے کہ ظاہری ادب و فرمانبرداری نہیں کرو گے تو تمہاری یہ ظاہری نافرمانی تمہارے باطن یعنی دلوں کے اختلاف کی طرف تمہیں پہنچائے گی۔ جو آگے چل کر آپس کے بغض و عناد اور کدورت و عداوت کا سبب بن جائے گی اور پھر قلوب کے یہ اختلاف اور یہ باطنی بری خصلتیں تمہاری ظاہری زندگی میں بھی اس طرح سرایت کر جائیں گی کہ تمہارے درمیان بغض وعداوت پیدا ہو جائے گی چنانچہ تم میں سے ہر آدمی ایک دوسرے سے اعراض کرے گا اور کسی کے دل میں کسی کے لیے ہمدردی کا کوئی جذبہ باقی نہ رہ جائے گا بہر حال حدیث کا حاصل یہ ہے کہ صفوں کو سیدھا اور ہموار رکھنے کی بڑی اہمیت ہے جب جماعت کھڑی ہو تو ہر آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو صف کے برابر کر لے اور ایک دوسرے سے آگے پیچھے نہ کھڑا ہونا چاہیے، اگر صف سیدھا کرنے کے اس حکم کی پیروی نہیں کی جائے گی تو جان لو کہ رب قدوس اس کی سزا تمہیں یہ دے گا کہ تمہارے درمیان بغض و نفرت پیدا ہو جائے گی جس سے تمہارے معاشرتی و سماجی امن و سکون کا شیرازہ بکھر کر رہ جائے گا۔
-