TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
صدقہ فطر کا بیان
صدقہ فطر کی مقدار
عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده أن النبي صلى الله عليه و سلم بعث مناديا في فجاج مكة : " ألا إن صدقة الفطر واجبة على كل مسلم ذكر أو أنثى حر أو عبد صغير أو كبير مدان من قمح أو سواه أو صاع من طعام " . رواه الترمذي-
حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ کے گلی کوچوں میں یہ منادی کرائی کہ سن لو! صدقہ فطر ہر مسلمان پر واجب ہے خواہ مرد ہو یا عورت، آزاد یا غلام اور چھوٹا ہو یا بڑا (اور اس کی مقدار) گیہوں یا اس کی مانند چیزوں ( مثلا خشک انگور وغیرہ ) میں سے دو مد اور (گیہوں کے علاوہ) دوسرے غلوں میں سے ایک صاع۔ (ترمذی) تشریح " دو مد" سے مراد آدھا صاع ہے کیونکہ ایک مد غلہ کا وزن چودہ چھٹانک کے قریب ہوتا ہے اور ایک صاع ساڑھے تین سیر کے برابر ہوتا ہے لہٰذا صدقہ فطر کے طور پر گیہوں پونے دو سیر یعنی ایک کلو 336گرام دینا چاہئے چونکہ گیہوں کا آٹا یا گیہوں کا ستو بھی گیہوں ہی کے مثل ہے اس لیے یہ دونوں چیزیں بھی اسی مقدار میں دینی چاہئیں۔
-
وعن عبد الله بن ثعلبة أو ثعلبة بن عبد الله بن أبي صعير عن أبيه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " صاع من بر أو قمح عن كل اثنين صغير أو كبير حر أو عبد ذكر أو أنثى . أما غنيكم فيزكيه الله . وأما فقيركم فيرد عليه أكثر ما أعطاه " . رواه أبو داود-
حضرت عبداللہ بن ثعلبہ یا حضرت ثعلبہ بن عبداللہ بن ابی صعیر اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " صدقہ فطر واجب ہے گیہوں میں سے ایک صاع دو آدمیوں کی طرف سے (کہ ہر ایک کی طرف سے نصف نصف صاع ہو گا) خواہ چھوٹے ہوں یا بڑے، آزاد ہوں یا غلام، مرد ہوں یا عورت، غنی کی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ (صدقہ فطر دینے کی وجہ سے) اسے پاکیزہ بنا دیتا ہے اور فقیر کا معاملہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے اس سے زیادہ دیتا ہے جتنا اس نے صدقہ فطر کے طور پر دیا " ۔ (ابو داؤد) تشریح مشکوۃ کے نسخوں میں حدیث کے راوی کا نام اگرچہ اسی طرح لکھا ہوا ہے لیکن صحیح اس طرح عبداللہ بن ثعلبہ بن ابی صعیر یا بن ابی صعیر عن ابیہ الخ۔ حضرت ثعلبہ رضی اللہ عنہ صحابی ہیں جن سے ان کے صاحبزادے یہ روایت نقل کرتے ہیں۔ حدیث کے آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ غنی بھی صدقہ فطر ادا کرے اور فقیر بھی صدقہ فطر دے ۔ ان دونوں کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ غنی کو تو اس کے صدقہ فطر دینے کی وجہ سے پاکیزہ بنا دیتا ہے اور فقیر کو اس سے زیادہ دیتا ہے جتنا اس نے صدقہ فطر کے طور پر دیا ہے، یہ بشارت اگرچہ غنی کے لیے بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے مال میں بھی اس سے کہیں زیادہ برکت عطا فرماتا ہے جتنا کہ اس نے دیا ہے مگر اس بشارت کو فقیر کے ساتھ اس لیے مخصوص کیا تاکہ اس کی ہمت افزائی ہو اور وہ صدقہ فطر دینے میں پیچھے نہ رہے۔
-