TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مناقب کا بیان
صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی برکت
وعن أبي سعيد الخدري قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " يأتي على الناس زمان فيغزو فئام من الناس فيقولون : هل فيكم من صاحب رسول الله صلى الله عليه و سلم . فيقولون : نعم . فيفتح لهم ثم يأتي على الناس زمان فيغزو فئام من الناس فيقال : هل فيكم من صاحب أصحاب رسول الله صلى الله عليه و سلم ؟ فيقولون : نعم . فيفتح لهم ثم يأتي على الناس زمان فيغزو فئام من الناس فيقال : هل فيكم من صاحب من صاحب أصحاب رسول الله صلى الله عليه و سلم ؟ فيقولون : نعم . فيفتح لهم " . متفق عليه وفي رواية لمسلم قال : " يأتي على الناس زمان يبعث منهم البعث فيقولون : انظروا هل تجدون فيكم أحدا من أصحاب رسول الله صلى الله عليه و سلم ؟ فيوجد الرجل فيفتح لهم به ثم يبعث البعث الثاني فيقولون : هل فيهم من رأى أصحاب النبي صلى الله عليه و سلم ؟ فيفتح لهم به ثم يبعث البعث الثالث فيقال : انظروا هل ترون فيهم من رأى من رأى أصحاب النبي صلى الله عليه و سلم ؟ ثم يكون البعث الرابع فيقال : انظروا هل ترون فيهم أحدا رأى من رأى أحدا رأى أصحاب النبي صلى الله عليه و سلم ؟ فيوجد الرجل فيفتح لهم به "-
اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ لوگوں کی ایک جماعت جہاد کرنے نکلے گی ، اور پھر وہ لوگ (آپس میں ) ایک دوسرے سے پوچھیں گے کہ کیا تمہارے درمیان کوئی ایسا شخص بھی ہے جس کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کا شرف حاصل ہوا ۔ وہ لوگ جواب میں کہیں گے کہ ہاں (ہمارے درمیان صحابی رسول موجود ہیں ) پس ان لوگوں کے لئے قلعہ وشہر کے دروازے وا ہوجائیں گے (یعنی صحابہ کی برکت وشوکت سے دشمنوں کے مقابلہ پر ان کو فتح حاصل ہوگی ) پھر لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ لوگوں کی ایک جماعت جہاد کے لئے نکلے گی اور پھر وہ آپس میں ایک دوسرے سے پوچھیں گے کہ کیا تمہارے درمیان کوئی ایسا شخص بھی موجود ہے جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی صحبت کا شرف حاصل کیا ہے (جس کو تابعی کہتے ہیں ) وہ جواب میں کہیں گے کہ ہاں (ہمارے درمیان تابعی موجود ہیں ) پس (تابعی کی برکت سے ) ان کے لئے قلعہ وشہر کے دروازے وا ہوجائیں گے پھر لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ لوگوں کی ایک جماعت جہاد کے لئے نکلے گی اور پھر وہ آپس میں ایک دوسرے سے پوچھیں گے کہ کیا تمہارے درمیان کوئی ایسا شخص بھی ہے جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے صحبت یافتہ حضرات کی صحبت کا شرف حاصل کیا ۔ (جس کو تبع تابعی کہتے ہیں ) وہ جواب میں کہیں گے کہ ہاں (ہمارے درمیان تبع تابعی موجود ہیں ) پس (تبع تابعی کی برکت سے ) ان لوگوں کے لئے قلعہ وشہر کے دروازے وا ہوجائیں گے (بخاری ومسلم ) اور مسلم کی ایک روایت میں یوں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ اس وقت لوگوں میں سے ایک لشکر (دشمنوں کے مقابلہ پر لڑنے کے لئے ) بھیجا جائے گا اور پھر وہ اہل لشکر آپس میں ایک دوسرے سے کہیں گے کہ ذرادیکھو تمہارے درمیان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کوئی موجود ہے یا نہیں ؟ (تلاش کرنے کے بعد ) پتہ چلے گا کہ (لشکر میں) ایک صحابی موجود ہیں پس (ان صحابی کی برکت سے ) اس لشکر کوفتح حاصل ہوگی ۔ اس کے بعد (اگلے زمانہ میں ) ایک دوسرا لشکر (کسی دوسرے علاقہ میں دشمنوں کے مقابلہ پر ) روانہ کیا جائے گا اور پھر وہ اہل لشکر کے آپس میں ایک دوسرے سے کہیں گے کہ ذرا دیکھو ، تمہارے درمیان کوئی ایسا شخص موجود ہے یا نہیں جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو دیکھا ہو؟ (تلاش کرنے پر) پتہ چلے گا کہ (لشکر میں ) ایک ایسے شخص یعنی تابعی موجود ہیں ۔ پس( ان تابعی کی برکت سے ) اس لشکر کو فتح حاصل ہوگی ۔ پھر اس کے بعد (اگلے زمانہ میں ) ایک تیسرا لشکر روانہ کیا جائے گا اور پھر وہ لشکر آپس میں ایک دوسرے سے کہیں گے کہ ذرا دیکھو تمہارے درمیان کوئی ایسا شخص موجود ہے یا نہیں جس نے کسی ایسے شخص کو دیکھا ہو جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین کو دیکھا ہو ؟ (تلاش کرنے پر ) پتہ چلے گا کہ (لشکر میں ) ایسے شخص موجود ہیں پس (ان کی برکت سے ) اس لشکر کوفتح حاصل ہوگی ۔ پھر اس کے بعد (اگلے زمانہ میں) ایک چوتھا لشکر روانہ کیا جائے گا اور پھر وہ لشکر آپس میں ایک دوسرے سے کہیں گے کہ ذرا دیکھو تمہارے درمیان کوئی ایسا لشکر موجود ہے یا نہیں جس نے کسی ایسے شخص کو دیکھا ہو جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو دیکھنے والے کسی شخص کو دیکھا ہو؟ (تلاش کرنے پر ) پتہ چلے گا کہ (لشکر میں ) ایک ایسے شخص موجود ہیں : پس (ان کی برکت سے ) اس لشکر کو فتح حاصل ہوگی ۔" تشریح : ان دونوں روایتوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس معجزہ کا ذکر تو ہے ہی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسی حقیقت کی پیش بیانی فرمائی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تین یا چار قرنوں (زمانوں) میں وقوع پزیر ہونے والی تھی اس کے ساتھ ہی ان روایتوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ تابعین تبع تابعین اور تبع تابعین کے فضیلت اور ان کا باعث خیروبرکت ہونا بھی مذکور بھی ہے ، ان دونون روایتوں میں فرق یہ ہے کہ پہلی روایت میں تو تین فرقوں یعنی صحابہ ، تابعین ، تبع تابعین کا ذکر ہے جب کہ مسلم کی دوسری روایتوں میں چار فرقوں یعنی صحابہ ، تابعین ، تبع تابعین ، اور تبع اتباع تابعین کا ذکر ہے ، اور بخاری کی بھی ایک صحیح روایت میں جو حدیث خیرالقرون سے متعلق ہے چار قرنوں کا ذکر ہے چونکہ اس درجہ کے اہل خیر چوتھے قرن میں نادر وکمیاب تھے اور پہلے تین قرنوں میں اہل خیر وبرکت اور اہل علم ودانش کی کثرت تھی ، کو تاہ بینی ، ناسمجھی اور فتنہ وفساد کی راہ مسدود تھی اس لئے اکثر روایتوں میں تین ہی قرنوں کے ذکر پر اکتفا کیا ہے ، چنانچہ صحیح مسلم میں حضرت عائشہ سے بطریق مرفوع منقول ہے کہ : خیرالناس القرن الذی انافیہ ثم الثانی ثم الثالث ۔ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ) بہترین لوگ وہ ہیں جو میرے زمانہ میں ہیں پھر دوسرے زمانہ کے اور پھر تیسرے زمانہ کے لوگ ۔" طبرانی نے حضرت ابن مسعود سے بطریق مرفوع نقل کیا ہے کہ : خیرالناس قرنی ثم الثانی ثم الثالث ثم تجئی قوم لاخیر فیہم ۔'(طبرانی) " بہترین لوگ وہ ہیں جو میرے زمانہ میں ہیں پھر دوسرے زمانہ کے لوگ پھرتیسرے زمانے کے لوگ اور پھر جو قوم آئے گی اس سے (پہلے زمانے جیسے ) بہترین لوگ نہیں ہوں گے ۔" " جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو دیکھا ہو " یہ مسلم کی دوسری روایت کے الفاظ ہیں اور ان سے معلوم ہوتا ہے کہ " تابعی " ہونے کے لئے اتنا کافی ہے کہ اس نے صحابہ کو دیکھا جیسا کہ " صحابی " ہونے کے لئے اتنا کافی ہے کہ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی ہو لیکن بعض علماء کا کہنا ہے کہ " صحابی " ہونے کے لئے تواتنا ہی کافی ہے کہ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی ہو لیکن " تابعی ہونے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس کو صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین کی صحبت وملازمت بھی نصیب ہوئی ہو جیسا کہ پہلی روایت میں شرف صحبت کا ذکر ہے اس صورت میں کہا جائے گا کہ یہاں " صحابہ کو دیکھا ہو" سے مراد یہ ہے کہ وہ صحابہ کی صحبت میں رہا ہو۔
-
وعن عمران بن حصين قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " خير أمتي قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم ثم إن بعدهم قوما يشهدون ولا يستشهدون ويخونون ولا يؤتمنون وينذرون ولا يفون ويظهر فيهم السمن " . وفي رواية : " ويحلفون ولا يستحلفون " . متفق عليه وفي رواية لمسلم عن أبي هريرة : " ثم يخلف قوم يحبون السمانة "-
اور حضرت عمران ابن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " میری امت کے بہترین لوگ میرے قرن کے لوگ (یعنی صحابہ ہیں پھر وہ لوگ جو ان سے متصل ہیں (یعنی تابعی ) اور پھر وہ لوگ جو ان سے متصل ہیں ۔ اور پھر ان قرنوں کے بعد جن لوگوں کا زمانہ آئے گا ان میں ایسے لوگ بھی ہوں گے جو نذر مانیں گے اور اپنی نذر کو پورا نہیں کریں گے اور ان میں موٹاپا فربہی پیدا ہوگی، اور ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ اور ایسے لوگ بھی ہوں گے جو (بلاضروت وبلاوجہ ) قسمیں کھائیں گے حالانکہ ان کو قسم نہیں دلائی جائے گی، (بخاری ومسلم ) اور مسلم کی ایک روایت میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے یہ الفاظ ہیں کہ پھر ان لوگوں کے بعد ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو موٹاپے کو یعنی فربہی کو پسند کریں گے ۔" تشریح : " قرن " عہد زمانہ کو کہتے ہیں ، جس کی مقدار بعض حضرات نے چالیس سال ، بعض نے اسی سال اور بعض نے سو سال مقرر کی ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ " قرن " کا اطلاق ماہ وسال کے تعین کے اعتبار سے محدود عہد زمانہ پر نہیں ہوتا بلکہ ہو وہ عہد یا زمانہ " قرن " کہلاتا ہے جو تقریبا یکساں عمر رکھنے والے لوگوں پر مشتمل ہوگویا " قرن" جو لفظ " اقتران " سے ماخوذ ہے ایسی مقدار ہے جس میں اس زمانہ کے لوگ اپنی عمروں اور احوال کے اعتبار سے ایک دوسرے کے نزدیک ہوتے ہیں پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قرن سے مراد صحابہ کا قرن ہے ۔ اس قرن کی ابتدازمانہ رسالت سے ہوتی ہے اور اس کا آخر وہ زمانہ ہے جب تک کہ ایک صحابی بھی دنیا میں باقی رہا یعنی ١٢٠ھ تک دوسرا قرن کہ تابعین کا قرن ہے ١٠٠ھ سے ١٧٠ھ تک کے زمانہ پر مشتمل ہے اور تیسرا قرن کہ جو اتباع تابعین کا قرن ہے۔تابعین کے قرن کے بعد سے شروع ہو کر تقریبا ٢٢٠ھ تک کے زمانہ پر مشتمل ہے اس قرن کے بعد اس مخصوص خیروبرکت کا سلسلہ ختم ہوگیا جو قرن اول (یعنی زمانہ رسالت اور قرن صحابہ ) اور اس سے ملے ہوئے دونوں قرنوں کو زبانی فرق کی نسبت سے کم وبیش حاصل رہی پھر تو بدعتوں کا ظہور شروع ہوگیا دین کے نام پرعجیب وغریب چیزیں پیدا ہونے لگیں ، فلاسفہ اور نام نہاد عقلاء نے سر اٹھائے ، معتزلہ کا جنم ہوا اور انہوں نے دین کو مسخ کرنے کا بیڑہ اٹھایا ، قرآن کو مخلوق کہنے کا فتنہ اٹھا ، جس نے اہل علم کو زبردست آزمائش وامتحان سے دوچار کیا لوگوں کی دینی زندگی کو گھن لگنے لگا ، نت نئے افکار وخیالات جنم لینے لگے ، اختلاف ونزاعات پھیلنے لگے ، آخرت کا خوف کم ہوا اور دنیا کی طرف رجحان بڑھنے لگا کہ جس کی خبرمخبر صادق صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں بیان فرمائی ۔" " جو خود بخود گواہی دینگے اور کوئی ان کی گواہی نہ چاہے گا " حدیث کے ان الفاظ سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ بغیر طلب گواہی دینا ایک بری حرکت ہے جب کہ ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ " گواہوں میں بہتر وہ گواہ ہے جو گواہی دے اس سے پہلے کہ اس سے گواہی کی درخواست کی جائے " بظاہر ان دونوں حدیثوں میں تعارض ہے لیکن درحقیقت ان کے درمیان کوئی تعارض نہیں ہے کیونکہ بغیر طلب گواہی دینے کی برائی ظاہر والی حدیث کا تعلق اس شخص سے ہے ، جس کے بارے میں معلوم ہو کہ وہ فلاں واقعہ یا معاملہ کا گواہ ہے لیکن اس کے باوجود صاحب معاملہ (مثلا مدعی ) نہ تو اس سے گواہی دینے کی درخواست کرتا ہے اور نہ اس کو عدالت میں بطور گواہ پیش کرنا چاہتا ہے، ایسی صورت میں اگر وہ شخص از خود (بغیرطلب) گواہی دیتا ہے تو ظاہر ہے کہ اس کی گواہی کے کوئی معنی کے کوئی معنی تو ہوگے نہیں البتہ یہ ضرور ثابت ہوگا کہ وہ اس گواہی کے پردہ میں کوئی فاسد غرض رکھتا ہے ، اس کے برخلاف اگر یہ صورت ہو کہ ایک شخص کسی واقعہ یا معاملہ کا گواہ ہے لیکن اس کا گواہ ہونا صاحب معاملہ کو معلوم نہیں ، وہ دیکھ رہا ہے کہ اگر میں نے گواہی نہ دی تو ایک مسلمان بھائی کا حق ڈوب جائے گا یا اس کو بلاوجہ کوئی مالی نقصان اٹھاناپڑے گا ، اس جذبہ خیر کے ساتھ وہ صاحب معاملہ کو بتاتا ہے کہ میں اس واقعہ یا معاملہ کا گواہ ہوں اور اگر تم چاہو تو تمہاری طرف سے عدالت میں پیش ہو کر گواہی دے سکتا ہوں ، بغیر طلب گواہی دینے والا ایسا شخص یقینا قابل تعریف ہوگا اور کہا جائے گا کہ دوسری حدیث (جس میں بغیرطلب گواہی دینے والے کو بہترین گواہ فرمایا گیا ہے ) ایسے شخص کو کے حق میں ہے۔ یا یہ کہ بغیر طلب گواہی دینے کی اچھائی بیان کرنے والی حدیث دراصل اس بات کو مبالغہ کے طور پر یعنی زیادہ سے زیادہ شدت اور تاکید کے ساتھ بیان کرنے کے لئے ہے کہ جو شخص کسی واقعہ یا معاملہ کا سچا گواہ ہو اس کو چاہئے کہ گواہی دینے سے اعراض نہ کرے اور جب اس سے کوئی گواہی طلب کی جائے تو دیر نہ کرے فورا حاضر ہو اور گواہی نہ چھپائے ، اسی طرح یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ بغیر طلب کے گواہی دینے کی برائی ظاہر کرنے والی حدیث اس شخص کے حق میں ہے جو گواہ بننے کا اہل نہ ہو یا اس شخص پر محمول ہے جو جھوٹی گواہی دے بعض حضرات نے یہ لکھا ہے کہ بغیر طلب گواہی دینے کی برائی بیان کرنے والی اس حدیث کا تعلق حقوق العباد سے متعلق گواہی دینے سے ہے اور اچھائی بیان کرنے والی حدیث کا محمول حقوق اللہ سے متعلق گواہی دینا ہے لیکن یہ اس صورت میں ہے جب کہ گواہی کو چھپانے میں مصلحت نہ ہو اور بعض حضرات کہتے ہیں کہ اس حدیث میں " شہادت " سے مراد سوگند (قسم ) ہے اس صورت میں حدیث کے ان الفاظ کا ترجمہ یہ ہوگا : ان میں ایسے لوگ بھی ہوں گے جو جھوٹی قسم کھائیں گے اس سے پہلے کہ کوئی ان کو قسم دے اور قسم کھلوائے ۔ جو خیانت کریں گے اور ان کی دیانت وامانت پراعتماد نہیں کیا جائے گا " کا مطلب یہ ہے کہ خیانت وبددیانتی میں وہ اس قدر جری اور مشہور ہوجائیں گے کہ لوگ ان کو امانت دار اور بادیانت ماننا چھوڑ دیں گے اور ان کو امانت کے وصف سے خالی سمجھا جائے گا ۔ہاں اگر کسی سے کبھی کبھار کوئی خیانت سرزد ہوجائے تو اس اعتبار نہیں ۔ " جو نذر مانینگے اور اپنی نذر کو پورا نہیں کریں گے " یعنی نہ صرف یہ کہ نذر پوری نہیں کریں گے بلکہ اس بات کو اہمیت بھی نہیں دینگے کہ نذر مان کر اس کا پورا نہ کرنا کتنی بری بات ہے ۔ حالانکہ نذر پوری کرنا لازم ہے اور اللہ کے جونیک بندے اس پر عمل کرتے ہیں ان کی تعریف قرآن میں بیان کی گئی ہے : یؤ فون بالنذر ویخافون یوما کان شرہ مستطیرا ۔ وہ (اللہ کے نیک بندے ) نذر پوری کرتے ہیں اور اس (قیامت کے ) دن سے ڈرتے ہیں ۔" " اور ان میں موٹاپا یعنی فربہی پیدا ہوگی " لفظ " سمن " کے معنی موٹاپے ، کے ہیں جو بہت کھانے پینے اور تنعم وترفہ کے سبب پیدا ہوتا ہے پس یہاں وہ موٹاپا مراد نہیں ہے جو خلقی اور طبعی طور پر ہو۔ بعض حضرات نے لکھا ہے کہ یہاں " فربہی " سے مراد احوال میں فربہی ہے یعنی فخر وشیخی کی راہ سے اپنے تئیں مالدار اور خوشحال ظاہر کریں گے اور عزت وشرف کی ان باتوں کا دعوی کریں گے جو سرے سے ان میں نہیں ہوں گی اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ " فربہی " سے مراد مال ودولت جمع کرنا اور تن پروری میں مشغول رہنا ہے ۔تورپشتی نے لکھا ہے " ان میں فربہی پیدا ہوگی " کے الفاظ دراصل اس بات سے کنایہ ہین کہ دینی معاملات اور احکام شریعت کی بجاآوری میں غفلت و کوتاہی کا شکار ہوں گے اور اوامرونواہی کو ملحوظ رکھنے کا اہتمام نہیں کریں گے جو دین وشریعت کا اصل تقاضاہیں ۔ اس بات کو " فربہی " سے تعبیر کرنے کی وجہ مناسبت یہ ہے کہ عام طور پر موٹے لوگ سست وکاہل ہوتے ہیں ، محنت ومشقت سے جی چراتے ہیں نفس کو ریاضت میں ڈالنے سے کتراتے ہیں ۔ اور ان کا زیادہ تراہتمام نفس کی لذت کو شی ، تن پروری اور راحت وآرام کے ساتھ اپنے بستروں پر پڑے رہنے تک محدود رہتا ہے ۔شرح مسلم میں لکھا ہے کہ علماء نے وضاحت کی ہے کہ وہ فربہی مذموم ہے ، جو (عیش وتنعم کے ذریعہ ) قصدا پیدا کی جائے ۔خلقی وطبعی فربہی نہ مذموم ہے نہ اس پر اس طرح کی روایتوں کا اطلاق ہوتا ہے ! اس وضاحت سے اس روایت کے معنی بھی صاف ہوجاتے ہیں جس میں فرمایا گیا ہے : ان اللہ یبغض الحبر السمین۔ " اللہ تعالیٰ فربہ عالم کو سخت ناپسند کرتا ہے ۔"
-