صبح وشام کی دعا

وعن أنس قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " من قال حين يصبح : اللهم أصبحنا نشهدك ونشهد حملة عرشك وملائكتك وجميع خلقك أنك أنت الله لا إله إلا أنت وحدك لا شريك لك وأن محمدا عبدك ورسولك إلا غفر الله له ما أصابه في يومه ذلك من ذنب " . رواه الترمذي وأبو داود وقال الترمذي : هذا حديث غريب-
حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص صبح کے وقت یہ دعا پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کے وہ تمام گناہ علاوہ گناہ کبیر اور حقوق العباد کے بخش دیتا ہے جو اس سے اس دن صادر ہوتے ہیں اور وہ دعا یہ ہے دعا (اللہم اصبحنا نشہدک ونشہد حملۃ عرشک وملائکتک وجمیع خلقک انک انت اللہ لا الہ الا انت وحدک لا شریک لک وان محمدا عبدک ورسولک)۔ اے اللہ ہم نے صبح کی اس حال میں کہ ہم تجھے، تیرے عرش کو اٹھانے والوں کو تیرے فرشتوں کو، اور تیری مخلوقات کو گواہ بناتے ہیں اس بات پر کہ تو اللہ ہے تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں تو یکتا ہے افعال و صفات میں تیرا کوئی شریک نہیں اور بلا شبہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تیرے بندے اور رسول ہیں اور جو شخص ان کلمات کو شام کے وقت کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے تمام وہ گناہ بخش دیتا ہے جو اس سے اس رات میں صادر ہوتے ہیں۔ (ترمذی، ابوداؤد) ترمذی کہتے ہیں کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح جملہ من قال حین یصبح میں لفظ " من" معنی کے اعتبار سے نافیہ کی جگہ استعمال ہوا ہے نیز یہ ممکن ہے کہ الا غفر اللہ لہ میں لفظ الا زائد ہو چنانچہ جملہ وان قالہا الخ سے اسی کی تائید ہوتی ہے کہ لفظ الا زائد ہے۔
-
وعن ثوبان قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " ما من عبد مسلم يقول إذا أمسى وإذا أصبح ثلاثا رضيت بالله ربا وبالإسلام دينا وبمحمد نبيا إلا كان حقا على الله أن يرضيه يوم القيامة " . رواه أحمد والترمذي-
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ۔ جو مسلمان بندہ شام اور صبح کے وقت تین بار یہ کہے کہ رضیت باللہ ربا وبالاسلام دینا وبمحمد نبیا (ترجمہ) میں اللہ کے رب ہونے پر اسلام کے دین ہونے پر اور محمد کے نبی ہونے راضی ہوا ) تو اللہ تعالیٰ پر از راہ کرم و فضل یہ لازم ہو گا کہ وہ قیامت کے دن اس بندہ کو راضی کرے (یعنی اللہ تعالیٰ اس کو اتنا ثواب دے گا کہ وہ راضی اور خوش ہو جائے گا۔ (احمد، ترمذی) تشریح بعض روایتوں میں لفظ نبیا ہے اور بعض میں رسول۔ لہٰذا مستحب یہ ہے کہ دونوں ہی لفظ پڑھے جائیں یعنی یوں کہا جائے وبمحمد نبیا و رسولا۔
-
وعن حذيفة أن النبي صلى الله عليه و سلم كان إذا أراد أن ينام وضع يده تحت رأسه ثم قال : " اللهم قني عذابك يوم تجمع عبادك أو تبعث عبادك " . رواه الترمذي-
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب سونے کا ارادہ فرماتے (یعنی سونے کے لئے لیٹتے تو اپنا ہاتھ اپنے سر کے نیچے رکھتے اور یہ دعا پڑھتے ۔ (اللہم قنی عذابک یوم تجمع عبادک) اور تبعث عبادک۔ اے اللہ مجھے اس دن کے عذاب سے بچائیے جس دن تو اپنے بندوں کو جمع کرے گا یا جب تو اپنے بندوں کو اٹھائے گا (یعنی قیامت کے دن ) یعنی راوی کو شک ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تجمع عبادک کہا یا اس کی بجائے تبعث عبادک کہا ۔ (ترمذی، امام احمد نے اس روایت کو براء سے نقل کیا ہے۔ تشریح اس روایت میں تو یہ ہے کہ " آپ صلی اللہ علیہ وسلم دست مبارک سر کے نیچے رکھتے تھے"جب کہ ایک اور روایت میں منقول ہے کہ رخسارہ مبارک کے نیچے رکھتے تھے لہٰذا ان دونوں روایتوں میں یوں مطابقت پیدا کی جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ہاتھ کبھی تو سر کے نیچے رکھتے ہوں گے اور کبھی رخسار مبارک کے نیچے جس راوی نے جو دیکھا اس کو روایت کر دیا یا یہ کہ ہاتھ کا کچھ حصہ تو سر کے نیچے ہوتا ہو گا اور کچھ حصہ رخسارہ کے نیچے لہٰذ جس راوی نے ہاتھ کا کچھ حصہ سر کے نیچے دیکھا اس نے یہ بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ہاتھ سر کے نیچے رکھتے تھے اور جس راوی نے ہاتھ کا کچھ حصہ رخسارہ کے نیچے دیکا اس نے رخسارہ کے نیچے رکھنے کو ذکر کیا۔
-
وعن حفصة رضي الله عنها أن رسول الله صلى الله عليه و سلم كان إذا أراد أن يرقد وضع يده اليمنى تحت خده ثم يقول : " اللهم قني عذابك يوم تبعث عبادك " . ثلاث مرات رواه أبو داود-
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب سونے کا ارادہ فرماتے تو اپنا دایاں ہاتھ اپنے رخسار کے نیچے رکھتے اور تین مرتبہ کہتے اے اللہ مجھے اس دن کے عذاب سے بچائیے جب تو اپنے بندوں کو اٹھائے گا۔ (ابوداؤد)
-
وعن علي رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه و سلم كان يقول عند مضجعه : " اللهم إني أعوذ بوجهك الكريم وكلماتك التامات من شر ما أنت آخذ بناصيته اللهم أنت تكشف المغرم والمأثم اللهم لا يهزم جندك ولا يخلف وعدك ولا ينفع ذا الجد منك الجد سبحانك وبحمدك " . رواه أبو داود-
حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے سونے کے وقت یہ دعا پڑھا کرتے تھے (اللہم انی اعوذ بوجہک الکریم وکلماتک التامات من شر ما انت اٰخذ بناصیتہ اللہم انت تکشف المغرم والمأثم اللہم لا یہزم جندک ولا یخلف وعدک ولا ینفع ذالجد منک الجد سبحانک وبحمدک۔ (ابو داؤد)
-
وعن أبي سعيد قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " من قال حين يأوي إلى فراشه : أستغفر الله الذي لا إله إلا هو الحي القيوم وأتوب إليه ثلاث مرات غفر الله له ذنوبه وإن كانت مثل زبد البحر أو عدد رمل عالج أو عدد ورق الشجر أو عدد أيام الدنيا " . رواه الترمذي وقال : هذا حديث غريب-
حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ روای ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص اپنے بستر پر آ کر (یعنی سونے کے وقت ) تین مرتبہ یہ کلمات پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ بخش دیتا ہے چاہے وہ دریا کے جھاگ کے برابر یا عالج کے ریت کے ذروں کی تعداد کے برابر یا درخت کے پتوں کے برابر اور یا دنیا کے دنوں کی تعداد کے برابر ہی کیوں نہ ہوں اور وہ کلمات یہ ہیں استغفر اللہ الذی لا الہ الا ہوالحی القیوم واتوب الیہ (یعنی میں اللہ سے بخشش چاہتا ہوں ایسا اللہ جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور جو زندہ مخلوق کی خبر گیری کرنے والا ہے اور میں اس کے سامنے توبہ کرتا ہوں۔ امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے ۔ تشریح " عالج" جو لام کے زیر کے ساتھ بھی پڑھا جاتا ہے اور زبر کے ساتھ بھی، مغربی علاقہ میں ایک جنگل کا نام تھا ۔ جہاں ریب تہ زیادہ ہوتی تھی اس حدیث میں ان تمام چیزوں کو بطور مثال بیان کرنے کی غرض یہ بتانا ہے کہ اگر گناہ بہت زیادہ ہوں گے تب بھی بخشے جائیں گے۔
-
وعن أبي مالك أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : " إذا أصبح أحدكم فليقل : أصبحنا وأصبح الملك لله رب العالمين اللهم إني أسألك خير هذا اليوم فتحه ونصره ونوره وبركته وهداه وأعوذ بك من شر ما فيه ومن شر ما بعده ثم إذا أمسى فليقل مثل ذلك " . رواه أبو داود-
حضرت ابومالک رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب صبح ہو تو تم میں سے ہر شخص کو چاہئے کہ وہ یہ دعا پڑھے دعا (اصبحنا واصبح الملک للہ رب العالمین اللہم انی اسألک خیر ہذا الیوم فتحہ ونصرہ ونورہ وبرکتہ وہداہ واعوذبک من شر مافیہ ومن شرمابعدہ) اور پھر جب شام ہو تو اسی طرح یہ دعا پڑھے۔ (ابوداؤد)
-
وعن عبد الرحمن بن أبي بكرة قال : قلت لأبي : يا أبت أسمعك تقول كل غداة : " اللهم عافني في بدني اللهم عافني في سمعي اللهم عافني في بصري لا إله إلا أنت " تكررها ثلاثا حين تصبح وثلاثا حين تمسي فقال : يا بني سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يدعو بهن فأنا أحب أن أستن بسننه . رواه أبو داود-
حضرت عبدالرحمن بن ابی بکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد صاحب سے کہا کہ ابا جان میں سنتا ہوں آپ روزانہ یہ دعا پڑھتے ہیں دعا (اللہم عافنی فی بدنی اللہم عافنی فی سمعی اللہم عافنی فی بصری لا الہ الا انت) اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ دعا تین مرتبہ صبح کے وقت اور تین مرتبہ شام کے وقت پڑھتے ہیں انہوں نے کہا میرے بیٹے میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو انہیں کلمات کے ذریعے دعا مانگتے سنا ہے لہٰذا میں اسے پسند کرتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کی پیروی کرو۔ (ابوداؤد) تشریح اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ دعا اور اعمال خیر کا اصل مقصد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کی بجا آوری اور آپ کی سنت کی پیروی ہونا چاہئے نہ کہ جزاء عمل اور قبولیت دعا۔
-