شب قدر کب آتی ہے

وعن عائشة رضي الله عنها قالت : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " تحروا ليلة القدر في الوتر من العشر الأواخر من رمضان " . رواه البخاري-
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، شب قدر کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ (بخاری) تشریح رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں سے مراد ہیں اکیسویں وتئیسویں شب ستائیسویں شب اور انتیسویں شب۔
-
وعن ابن عمر قال : إن رجلا من أصحاب النبي صلى الله عليه و سلم أروا ليلة القدر في المنام في السبع الأواخر فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " أرى رؤياكم قد تواطأت في السبع الأواخر فمن كان متحريها فليتحرها في السبع الأواخر "-
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کتنے ہی صحابہ کو خواب میں شب قدر (رمضان کی آخری سات راتوں میں دکھلائی گئی چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں یہ بات دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے سب کے خواب آخری سات راتوں پر متفق ہیں لہٰذا جو شخص شب قدر پانا چاہے تو اسے چاہئے کہ وہ اسے آخری سات راتوں میں تلاش کرے (بخاری ومسلم) تشریح احتمال ہے کہ آخری سات راتوں سے وہ راتیں مراد ہیں جو بیس کے فورا بعد ہیں یعنی اکیسویں شب سے ستائیسویں شب تک یا سب سے آخری سات راتیں بھی مراد ہو سکتی ہیں یعنی تئیسویں شب سے انتیسویں شب تک اور چونکہ انتیسویں تاریخ یقینی ہوتی ہے اس لیے اسی کے مطابق حساب کیا جائے گا اس بارہ میں آخری احتمال یعنی یہ کہ تئیسویں شب سے انتیسویں شب تک مراد ہو زیادہ صحیح ہے۔
-
وعن ابن عباس أن النبي صلى الله عليه و سلم قال : التمسوها في العشر الأواخر من رمضان ليلة القدر : في تاسعة تبقى في سابعة تبقى في خامسة تبقى . رواه البخاري-
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اسے رمضان کے آخری عشرہ میں تلاش کرو یعنی لیلۃ القدر کو تلاش کرو باقی ماندہ نویں شب میں (کہ وہ اکیسویں شب ہے) باقی ماندہ ساتویں شب میں (کہ وہ تئیسویں شب ہے ) اور باقی ماندہ پانچویں شب میں (کہ وہ پچیسویں شب ہے۔ (بخاری) تشریح لیلۃ القدر کو پانے کے لیے رمضان کے آخری عشرہ کی کچھ راتوں کو یہاں ذکر کیا گیا ہے کہ ان راتوں میں عبادت اور ذکر و تلاوت میں مشغولیت اختیار کی جائے تاکہ لیلۃ القدر ان میں سے جس شب بھی آئے اس کی سعادت حاصل ہو جائے ۔ حدیث میں راتوں کی ترتیب کے سلسلہ میں جو اسلوب اختیار فرمایا گیا ہے اس کی وضاحت ترجمہ میں بین القوسین کی گئی ہے کہ اس ترتیب سے مراد اکیسویں ، تئیسویں اور پچیسویں شب ہے لیکن اس سلسلہ میں حدیث میں ذکر کردہ راتوں کو اس طرح آخر سے بھی شمار کیا جا سکتا ہے کہ لیلۃ القدر کو تلاش کرو بیسویں شب کے بعد نویں رات میں کہ وہ انتیسویں شب ہے اور بیسویں شب کے بعد ساتویں رات میں وہ ستائیسویں رات ہے اور بیسویں شب کے بعد پانچویں رات میں کہ وہ پچیسویں شب ہے ، یہ وضاحت زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے لیکن علامہ یحییٰ فرماتے ہیں کہ حدیث میں جو راتیں ذکر کی گئی ہیں ان سے مراد ہے یا تئیسویں شب ، چوبیسویں شب اور چھبیسویں شب۔
-
وعن أبي سعيد الخدري رضي الله عنهم أن رسول الله صلى الله عليه و سلم اعتكف العشر الأول من رمضان ثم اعتكف العشر الأوسط في قبة تركية ثم أطلع رأسه . فقال : " إني اعتكفت العشر الأول ألتمس هذه الليلة ثم اعتكفت العشر الأوسط ثم أتيت فقيل لي إنها في العشر الأواخر فمن أعتكف معي فليعتكف العشر الأواخر فقد أريت هذه الليلة ثم أنسيتها وقد رأيتني أسجد في ماء وطين من صبيحتها فالتمسوها في العشر الأواخر والتمسوها في كل وتر " . قال : فمطرت السماء تلك الليلة وكان المسجد على عريش فوكف المسجد فبصرت عيناي رسول الله صلى الله عليه و سلم وعلى جبهته أثر الماء والطين والماء من صبيحة إحدى وعشرين . متفق عليه في المعنى واللفظ لمسلم إلى قوله : " فقيل لي : إنها في العشر الأواخر " . والباقي للبخاريوفي رواية عبد الله بن أنيس قال : " ليلة ثلاث وعشرين " . رواه مسلم-
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رمضان کے پہلے عشرہ میں اعتکاف کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ترکی خیمہ کے اندر درمیانی عشرہ میں اعتکاف کیا اس کے بعد آپ نے اپنا سر مبارک خیمہ سے باہر نکال کر فرمایا کہ میں نے شب قدر کو تلاش کرنے کے لیے پہلے عشرہ میں اعتکاف کیا پھر میں نے درمیانی عشرہ میں اعتکاف کیا، اس کے بعد میرے پاس فرشتہ آیا اور اس نے مجھے بتایا کہ شب قدر رمضان کے آخری عشرہ میں آتی ہے لہٰذا جو شخص میرے ساتھ اعتکاف کرنا چاہے اسے چاہئے کہ وہ آخری عشرہ میں اعتکاف کرے اور مجھے خواب میں شب قدر کو متعین کر کے بتایا گیا مگر بعد میں اسے میرے ذہن سے محو کر دیا گیا یعنی حضرت جبرائیل نے مجھے بتایا کہ فلاں رات شب قدر ہے مگر پھر میں بھول گیا کہ انہوں نے کس رات کا تعین کیا تھا اور میں نے خواب میں اپنے آپ کو دیکھا کہ میں اس کی صبح یعنی لیلۃ القدر کی صبح کو کیچڑ میں سجدہ کر رہا ہوں اور چونکہ میں یہ بھول گیا ہوں کہ وہ کون سی رات تھی لہٰذا اسے رمضان کے آخری عشرہ میں تلاش کرو نیز لیلۃ القدر کو طاق راتوں میں یعنی آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ راوی کہتے ہیں کہ (جس رات کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواب دیکھا تھا) اس رات میں بارش ہوئی تھی اور چونکہ مسجد کی چھت کھجور کی شاخوں کی بنی ہوئی تھی اس لئے مسجد ٹپکی چنانچہ میری آنکھوں نے دیکھا کہ اکیسویں شب کی صبح کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشانی پر پانی اور مٹی کا نشان تھا۔ اس حدیث کے نقل کے سلسلہ میں معنوی طور پر بخاری و مسلم دونوں متفق ہیں البتہ فقیل لی انہا فی العشر الا واخر تک اس روایت کے الفاظ تو مسلم نے نقل کئے ہیں اور روایت کے باقی الفاظ بخاری نے نقل کئے ہیں نیز ایک دوسری روایت کے باقی الفاظ بخاری نے نقل کئے ہیں نیز ایک دوسری روایت میں جو عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے اکیسویں شب کی صبح کی بجائے تئیسویں شب کی صبح کے الفاظ ہیں اس روایت کو مسلم نے نقل کیا ہے۔ تشریح ترکی خیمہ ، خیمہ کی ایک قسم کا نام تھا جو نمدہ سے بنتا تھا اور سائز میں چھوٹا ہوتا تھا اس خیمہ کو فارسی میں خرگاہ، کہتے ہیں روایت کے آخر میں لفظ من صبیحۃ من معنی کے اعتبار سے " فی" کی جگہ استعمال کیا گیا ہے اور بصرت کا متعلق ہے۔ بہر کیف روایت کے آخر میں راوی نے کچھ بیان کیا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس رات میں لیلۃ القدر کو خواب میں دیکھا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواب میں یہ بھی دیکھا تھا کہ میں لیلۃ القدر کی صبح کو پانی اور مٹی میں سجدہ کرتا ہوں چنانچہ اسی رات میں بارش ہوئی تھیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صبح کو جب مسجد میں نماز پڑھی تو اس حال میں سجدہ کیا کہ مسجد کی زمین پر چھت ٹپکنے کی وجہ سے پانی اور گارا تھا جس کا نشان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشانی پر نمایا تھا گویا راوی نے اس بارش کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خواب کی رات کی علامت قرار دیا اور چونکہ یہ واقعہ اکیسویں یا تئیسویں شب کا تھا اس لیے راوی نے اس علامت کے ذریعہ معلوم کیا کہ لیلۃ القدر اکیسویں یا تئیسویں شب ہے کیونکہ اسی شب میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لیلۃ القدر کو دیکھا۔
-