TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
صبح وشام اور سوتے وقت پڑھی جانے والی دعاؤں کا بیان
سوتے وقت بستر کو جھاڑ لینا چاہئے
وعن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إذا أوى أحدكم إلى فراشه فلينفض فراشه بداخلة إزاره فإنه لا يدري ما خلفه عليه ثم يقول : باسمك ربي وضعت جنبي وبك أرفعه إن أمسكت نفسي فارحمهما وإن أرسلتها فاحفظها بما تحفظ به عبادك الصالحين " . وفي رواية : " ثم ليضطجع على شقه الأيمن ثم ليقل : باسمك " وفي رواية : " فلينفضه بصنفة ثوبه ثلاث مرات وإن أمسكت نفسي فاغفر لها "-
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب تم میں کوئی سونے کے لئے اپنے بستر پر آئے تو اسے چاہئے کہ اپنے بستر کو اپنی لنگی کے اندر کے کونے سے جھاڑ لے کیونکہ اسے نہیں معلوم کہ اس کی عدم موجودگی میں اس کے بستر پر کیا چیز(مثلاً کیڑا مکوڑا، یا گرد و غبار) گری پڑی ہو اور اس کے بعد وہ بستر پر لیٹے اور پھر کہے دعا (باسمک ربی وضعت جنبی وبک ارفعہ ان امسکت نفسی فارحمہا وان ارسلتہا فاحفظہا بما تحفظ بہ عبادک الصالحین)۔ اور ایک روایت میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی اپنے بستر پر آئے تو اسے چاہئے کہ وہ پہلے اپنا بستر جھاڑے پھر اپنی داہنی کروٹ پر لیٹے اور پھر باسمک (یعنی مذکورہ بالا دعا) آخرت تک پڑھے ) (مسلم اور بخاری ) ایک روایت میں یہ ہے کہ اسے چاہئے کہ وہ اپنے بستر کو اپنے کپڑے کے کونے سے تین مرتبہ جھاڑے نیز اس روایت میں دعا (وان امسکت نفسی فاغفر لہا) یعنی مذکورہ بالا دعا میں فارحمہا کی بجائے فاغفر لہا ہے ۔ تشریح لنگی کے کونے سے مراد کپڑے کا وہ حصہ یا کونہ ہے جو اندرونی طرف اور بدن سے لگا ہوا ہوتا ہے خواہ وہ لنگی ہو یا کوئی اور لباس! نیز لنگی کے کونے سے جھاڑنے کے لئے اس لئے فرمایا کہ باہر کے کونے جھاڑنے سے بستر کا کوئی حصہ کھلنے بھی نہیں پائے گا! حاصل یہ کہ جب کوئی شخص بستر پر آئے تو پہلئے وہ بستر کو کسی کپڑا وغیرہ سے جھاڑے تاکہ بستر اگر اذیت و نقصان پہنچانے والی کوئی چیز گری پڑی ہو تو اس سے بستر صاف ہو جائے گا اگر بستر کو جھاڑنے کے لئے الگ سے کوئی کپڑا وغیرہ نہ ہو تو پھر اپنی لنگی یا کرتے وغیرہ کے کونے سے ہی اسے جھاڑ لیا جائے۔ جب انسان سوتا ہے تو وہ گویا مردے ہی کے حکم میں ہو جاتا ہے کہ حق تعالیٰ اس کی روح عارضی طور پر قبض کر لیتا ہے پھر اس کے بعد اس کی روح کو اس کے جسم میں بھیج دیتا ہے یعنی اسے نیند سے بیدار کر دیتا ہے یا اس کی روح کو چھوڑتا ہے یعنی مستقل طور پر قبض کر لیتا ہے اور اس شخص پر موت طاری کر دیتا ہے چنانچہ اسی چیز کے بارہ میں مذکورہ بالا دعا میں درخواست ہے کہ پروردگار اگر تو سونے کی حالت میں میری روح کو رکھ چھوڑے اور مجھ پر موت طاری فرما دے تو اس صورت میں مجھے بخش دیجئے اور اگر میری روح کو واپس بھیج دے اور مجھے زندہ رکھے تو پھر اسی طرح میری نگہبانی فرمائیے جس طرح تو اپنے نیک بندوں کی نگہبانی فرماتا ہے یعنی نیکی و بھلائی کی توفیق دیجئے اور میرے ہر کام و فعل میں میرا معین و مددگار بنئے۔ نیک بندوں سے مراد وہ بندے ہیں جو خدا اور اس کے رسول کی اطاعت و فرمانبرداری اور عبادت و طاعت کے ذریعہ اللہ کا حق بھی ادا کرتے ہیں اور بندوں کے حقوق بھی جو ان کے ذمہ ہوتے ہیں پورا کرتے ہیں۔ دائیں کروٹ سونے میں حکمت یہ ہے کہ دل چونکہ بائیں پہلو میں ہوتا ہے اس لئے دائیں کروٹ سونے کی سورت میں دل لٹکتا رہتا ہے جس کی وجہ سے نیند میں استراحت اور غفلت زیادہ نہیں ہوتی۔ اور نماز تہجد وغیرہ کے لئے جاگنا آسان ہوتا ہے جبکہ بائیں کروٹ سونے کی صورت میں دل اپنی جگہ ٹھہرا رہتا ہے۔ جس کی وجہ سے نیند میں غفلت اور استراحت بہت زیادہ ہوتی ہے۔
-
وعن البراء بن عازب قال : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم إذا أوى إلى فراشه نام على شقه الأيمن ثم قال : " اللهم أسلمت نفسي إليك ووجهت وجهي إليك وفوضت أمري إليك وألجأت ظهري إليك رغبة ورهبة إليك لا ملجأ ولا منجا منك إلا إليك آمنت بكتابك الذي أنزلت ونبيك الذي أرسلت " . وقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " من قالهن ثم مات تحت ليلته مات على الفطرة " وفي رواية قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم لرجل : " يا فلان إذا أويت إلى فراشك فتوضأ وضوءك للصلاة ثم اضطجع على شقك الأيمن ثم قل : اللهم أسلمت نفسي إليك إلى قوله : أرسلت " وقال : " فإن مت من ليلتك مت على الفطرة وإن أصبحت أصبت خيرا "-
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب اپنے بستر پر سوتے وقت دائیں کروٹ پر سوتے اور سونے سے پہلے یہ فرماتے دعا (اللہم اسلمت نفسی الیک وجہت وجہی الیک و فوضت امری الیک والجأت ظہری الیک رغبۃ ورہبۃ الیک لا ملجا ولا منجا منک الا الیک امنت بکتابک الذی انزلت وبنبیک الذی ارسلت)۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے جس شخص نے ان کلمات کو سونے سے پہلے کہا اور پھر اسی رات میں مر گیا تو وہ دین اسلام پر مرا۔ ایک اور روایت میں یوں ہے کہ حضرت براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص سے فرمایا ۔ اے فلاں شخص جب تم اپنے بستر پر آؤ تو پہلے تم نماز کے وضو جیسا وضو پورا کرو اور پھر اپنی داہنی کروٹ پر لیٹ کر (اللہم اسلمت نفسی سے ارسلت تک (یعنی مذکورہ بالا دعا) پڑھو پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگر اس رات میں تمہاری موت واقع ہو گئی تو تم دین اسلام پر مرو گے اور اگر تم نے صبح کر لی تو بھلائیوں کو بہت (یعنی بہت زیادہ بھلائیوں کو یا یہ کہ دارین کی بھلائیوں ) کو پاؤ گے۔ (بخاری ومسلم)
-
وعن أنس أن رسول الله صلى الله عليه و سلم كان إذا أوى إلى فراشه قال : " الحمد لله الذي أطعمنا وسقانا وكفانا وآوانا فكم ممن لا كافي له ولا مؤوي " . رواه مسلم-
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب اپنے بستر پر تشریف لاتے تو یہ کہتے دعا (الحمد للہ الذی اطعمنا وسقانا وکفانا واوانا ممن لاکافی لہ ولا مؤوی۔ (مسلم) تشریح دعا کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ اس وسیع و عریض دنیا میں ایسے لوگوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے جو روز مرہ کی تکلیف وپریشانیوں میں مبتلا رہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کو تکالیف وپریشانیوں سے محفوظ نہیں رکھتا بلکہ وہ ان پر غالب رہتی ہیں چنانچہ نہ صرف یہ کہ وہ اپنی روز مرہ کی ضروریات زندگی ہی میں رحمت خداوندی کے التفات سے محروم رہتے ہیں بلکہ قضا و قدر خداوندی کے تحت ان کو سر چھپانے کے لئے کوئی ٹھکانہ بھی میسر نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ کوچوں، بازاروں میں فٹ پاتھ اور سڑکوں پر اور جنگلات و ویرانوں میں اپنی سخت کوش زندگی کی گھڑیاں گزارتے ہیں نہ انہیں گرمی سے بچنے کی راحت نصیب ہوتی ہے اور نہ سردی کی ایذاء تکلیف سے نجات کی کوئی پناہ گاہ ۔
-
وعن علي : أن فاطمة أنت النبي صلى الله عليه و سلم تشكو إليه ما تلقى في يدها من الرحى وبلغها أنه جاءه رقيق فلم تصادفه فذكرت ذلك لعائشة فلما جاء أخبرته عائشة قال : فجاءنا وقد أخذنا مضاجعنا فذهبنا نقوم فقال : على مكانكما فجاء فقعد بيني وبينها حتى وجدت برد قدمه على بطني فقال : " ألا أدلكما على خير مما سألتما ؟ إذا أخذتما مضجعكما فسبحا ثلاثا وثلاثين واحمدا ثلاثا وثلاثين وكبرا ثلاثا وثلاثين فهو خير لكما من خادم "-
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کہتے ہیں کہ (میری زوجہ محترمہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی) حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاں اس غرض سے حاضر ہوئی کہ چکی پیسنے کی وجہ سے ان کے ہاتھ جس زحمت و مشقت میں مبتلا تھے اس کی شکایت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کریں (اور کوئی خدمت گار مانگیں) کیونکہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو معلوم ہوا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس کچھ غلام آئے ہیں مگر اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان کی ملاقات نہیں ہوئی ، چنانچہ انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے اس کا تذکرہ کیا یعنی ان سے کہا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائیں تو کہہ دیجئے گا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہ اپنی مشقت و تکلیف کے پیش نظر ایک غلام مانگنے حاضر ہوئی تھیں۔ پھر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا پیغام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچا دیا ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے ہاں اس وقت تشریف لائے جب کہ ہم اپنے بستروں پر لیٹ چکے تھے (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ کر ہم نے اٹھنے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اپنی جگہ پر لیٹے رہو ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے نزدیک تشریف لائے اور میرے اور فاطمہ کے درمیان بیٹھ گئے یہاں تک کہ میں نے اپنے پیٹ پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک قدموں کی ٹھنڈک محسوس کی پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا (مجھے فاطمہ کا پیغام مل گیا ہے) کیا میں تمہیں وہ چیز نہ بتلا دوں جو اس چیز (یعنی غلام ) سے بہتر ہے جو تم نے مانگی تھی اور وہ یہ ہے کہ جب تم اپنے بستر پر آؤ تو تینتیس بار سبحان اللہ تینتیس بار الحمد للہ اور چونتیس بار اللہ اکبر کہو تمہارے لئے خادم سے یہ چیز بہتر ہے۔ (بخاری ومسلم) تشریح چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ دونوں ہی سے بے انتہا محبت فرماتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے حد شفقت کسی تکلف کو گوارہ نہیں کرتی تھی اس لئے جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے ہاں آئے تو کامل محبت و شفقت کی وجہ سے ان دونوں کے درمیان تشریف فرما ہو گئے کیونکہ پیار و محبت اور شفقت و الفت کسی تکلف کی پابند نہیں ہوتی، اس لئے کہا گیا ہے کہ (اذا جاءت الالفۃ رفعت الکلفۃ (ترجمہ) جب الفت آئی تو تکلف اٹھا دی گئی ۔ مذکورہ بالا کلمات کی ترتیب کے سلسلہ میں جزری نے شرح مصابیح میں کہا ہے کہ تکبیر پہلے ہے چنانچہ ابن کثیر رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ نمازوں کے بعد تو پہلے سبحان اللہ پڑھنا چاہئے اس کے بعد الحمد للہ اور پھر اللہ اکبر لیکن سوتے وقت پہلے اللہ اکبر ہی پڑھ لینا چاہئے اس سلسلہ میں علماء لکھتے ہیں کہ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اللہ اکبر کو کبھی تو پہلے پڑھا جائے اور کبھی بعد میں تاکہ اس بارہ میں منقول دونوں روایتوں ہی پر عمل ہو اور یہی اولی اور زیادہ بہتر ہے۔ ارشاد گرامی، تمہارے لئے یہ چیز خادم سے زیادہ بہتر ہے۔ کے ذریعہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دنیا کی مشقتوں اور تکالیف اور دنیاوی طور پر ناپائیدار چیزوں مثلاً مرض و فقر پر صبر کی ترغیب دلائی گئی ہے نیز اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ شکر کرنے والے مالدار کی بہ نسبت صبر کرنے والا مفلس زیادہ افضل ہے ۔
-
وعن أبي هريرة قال : جاءت فاطمة إلى النبي صلى الله عليه و سلم تسأله خادما فقال : " ألا أدلك على ما هو خير من خادم ؟ تسبحين الله ثلاثا وثلاثين وتحمدين الله ثلاثا وثلاثين وتكبرين الله أربعا وثلاثين عند كل صلاة وعند منامك " . رواه مسلم-
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت فاطمہ زہرہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں اس مقصد سے حاضر ہوئیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی خادم مانگیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان کی ملاقات نہ ہو سکی۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ معلوم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ کیا میں تمہیں وہ چیز نہ بتا دوں جو خادم سے بہتر ہے ۔ (اور وہ یہ ہے ) ہر نماز کے بعد اور سوتے وقت سبحان اللہ تینتیس بار اور الحمدللہ تینتیس بار اور اللہ اکبر چونتیس بار پڑھ لیا کرو۔ (مسلم) تشریح سونے کے وقت ان تسبیحات کا پڑھنا دن بھر کی مشقت و محنت و کوفت اور ہر قسم کے رنج و غم کو دور کرتا ہے۔
-