TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
نماز قصر سے متعلقہ احادیث
سفر میں نماز پڑھنے کا بیان
وَعَنِ الْبَرَاءِ قَالَ صَحِبْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم ثَمَانِیَۃَ عَشَرَ سَفَرًا فَمَارَأَیْتُہ، تَرَکَ رَکْعَتَیْنِ اِذَا زَاغَتِ الشَّمْسُ قَبْلَ الظُّھْرِ رَوَاہُ اَبُوْدَاؤدَ وَالتِّرْمِذِیُّ وَقَالَ ھٰذَا حَدِیْثٌ غَرِیْبٌ۔-
" اور حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے سر تاج دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ اٹھارہ دن سفر کا شرف حاصل رہا ہے میں نے اس دوران میں یہ کبھی نہیں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زوال آفتاب کے بعد نماز ظہر سے پہلے دو رکعتیں چھوڑی ہوں۔" (ابوداؤد، ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث غریب ہے) تشریح بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم زوال آفتاب کے بعد اور نماز ظہر سے پہلے دو رکعتیں فرض سے پہلے کی سنتیں پڑھتے ہوں گے اور سفر کی وجہ سے چار رکعتوں پر اکتفا کرتے ہوں گے یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دو رکعتیں تحیۃ الوضو کی ہوں۔
-
وَعَنْ نَافِعٍ قَالَ اِنَّ عَبْدَاﷲِ ابْنِ عُمَرَ کَانَ یَرٰی ابْنَہ، عُبَیْدَ اﷲِ یَتَنَفَّلُ فِی السَّفَرِ فَلَا یُنْکِرُ عَلَیْہِ۔ (رواہ مالک)-
" اور حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے صاحبزادے حضرت عبیداللہ کو سفر کی حالت میں نفل پڑھتے ہوئے دیکھتے تھے اور منع نہیں کرتے تھے۔" (مالک) فائدہ : ہو سکتا ہے کہ حضرت عبیداللہ سنت مؤ کدہ پڑھتے ہوں گے۔ یا یہ کہ وہ اس اعتقاد کے باوجود کہ سفر کی حالت میں نفل نماز کو چھوڑ دینا جائز ہے۔ اگر وقت میں وسعت دیکھتے ہوں گے، تو دوسرے نوافل پڑھنے لگتے ہوں گے۔ لہٰذا اس مفہوم کی صورت میں حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں اس روایت کو جس میں مذکور ہے کہ انہوں نے اپنے قافلے کے لوگوں کو سفر میں نفل نماز پڑھنے سے منع کر دیا تھا۔ (دیکھئے حدیث نمبر ٦٠) اس بات پر محمول کیا جائے کہ انہوں نے یہ گمان کیا ہوگا ، کہ وظائف مثلاً نوافل وغیرہ اس قدر لازم ہیں کہ انہیں سفر کی حالت میں بھی نہ چھوڑنا چاہیے۔ حالانکہ ایسا کوئی حکم نہیں ہے۔ اس لیے حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو نوافل پڑھنے سے روک کر ان کے اس گمان و خیال کی تردید فرمائی۔ کیونکہ اللہ جل شانہ تو اپنے فضل و کرم سے مسافر بندہ کے نامہ اعمال میں اس عمل کا ثواب بھی لکھتا ہے جو وہ از قسم عبادت حضر ہو یعنی اپنے گھر میں کرتا تھا۔ ورنہ تو جہاں تک نفس نماز کا تعلق ہے اس سے بہتر کون سی مشغولیت ہو سکتی ہے اور بغیر کسی وجہ کے اس کے پڑھنے سے کون روک سکتا ہے ۔ جب کہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود جانتے تھے کہ نماز سے روکنا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ ارشاد ربانی ہے : آیت (اَرَءَيْتَ الَّذِيْ يَنْهٰى Ḍ عَبْدًا اِذَا صَلّٰى 10 ) 96۔ العلق : 9) " بھلا تم نے اس آدمی کو دیکھا جو منع کرتا ہے (یعنی) ایک بندے کو جب وہ نماز پڑھنے لگتا ہے؟"
-