TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
باری مقرر کرنے کا بیان
سفر میں ساتھ لے جانے کے لئے کسی بیوی کا انتخاب قرعہ کے ذریعہ کیا جائے
وعنها قالت : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم إذا أراد سفرا أقرع بين نسائه فأيهن خرج سهمها خرج بها معه (2/233)-
اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سفر کا ارادہ فرماتے تو اپنی بیوی کے درمیان قرعہ ڈالتے ان میں سے جس کا نام قرعہ میں نکلتا اسی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ سفر میں لے جاتے ( بخاری و مسلم)
-
وعن أبي قلابة عن أنس قال : من السنة إذا تزوج الرجل البكر على الثيب أقام عندها سبعا وقسم إذا تزوج الثيب أقام عندها ثلاثا ثم قسم . قال أبو قلابة : ولو شئت لقلت : إن أنسا رفعه إلى النبي صلى الله عليه و سلم-
اور حضرت ابوقلابہ تابعی حضرت انس سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا یہ مسنون ہے کہ جب کوئی شخص ثیبہ کی موجودگی میں کسی باکرہ سے نکاح کرے تو سات رات تک اس کے پاس رہے اور پھر اس میں اور پرانی بیویوں کے درمیان باری مقرر کر دے اور کسی ثیب یعنی کسی بیوہ یا مطلقہ عورت سے نکاح کرے تو اس کے پاس تین رات رہے اور پھر باری مقرر کر دے ۔ حضرت ابوقلابہ کہتے ہیں کہ اگر میں چاہتا تو یہ کہتا کہ حضرت انس نے یہ حدیث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کی ہے (بخاری ومسلم) تشریح : حضرت امام شافعی نے اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر کسی شخص کے نکاح میں کئی عورتیں ہوں یا ایک عورت ہو اور پھر وہ ایک عورت سے نکاح کرے تو اگر وہ عورت باکرہ (کنواری) ہو تو اس کے پاس سات رات تک رہے اور اگر وہ ثیبہ (یعنی بیوہ یا مطلقہ ہو) تو اس کے پاس تین رات تک رہے اور پھر نئی اور پرانی بیویوں کے درمیان باری مقرر کر دے کہ ہر ایک کے پاس برابر برابر ایک ایک رات جایا کرے لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک اس سلسلہ میں باکرہ اور ثیب یا نئی اور پرانی کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے ۔ باری کے اعتبار سے سب برابر ہیں انہوں نے ان دونوں حدیثوں پر عمل کیا ہے جو اس باب کی دوسری فصل میں آئیں گی اور جن میں اس قسم کا فرق و امتیاز بیان نہیں کیا گیا ہے، امام اعظم کے نزدیک اس حدیث کے یہ معنی ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی ایک یا ایک سے زائد بیویوں کی موجودگی میں کسی باکرہ سے نکاح کرے تو اس کے پاس سات رات تک رہے اور پھر پہلی بیویوں میں سے بھی ہر ایک کے پاس سات سات رات تک رہے اور اگر ثیبہ کے ساتھ نکاح کرے تو اس کے پاس تین رات تک رہے اور پھر پہلی بیویوں سے بھی ہر ایک کے پاس تین تین رات تک رہے ۔ روایت کے آخر میں ابوقلابہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر میں چاہتا تو اس حدیث کو مرفوع کہتا یعنی یہ کہتا کہ اس حدیث کو حضرت انس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے کیونکہ صحابہ کا یہ کہنا کہ یہ مسنون ہے مرفوع کے حکم میں ہوتا ہے۔
-
وعن أبي بكر بن عبد الرحمن : أن رسول الله صلى الله عليه و سلم حين تزوج أم سلمة وأصبحت عنده قال لها : " ليس بك على أهلك هوان إن شئت سبعت عندك وسبعت عندهن وإن شئت ثلثت عندك ودرت " . قالت : ثلث . وفي رواية : أنه قال لها : " للبكر سبع وللثيب ثلاث " . رواه مسلم-
اور حضرت ابوبکر بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت ام سلمہ سے نکاح کیا تو دوسرے دن صبح کو ان سے فرمایا کہ تمہارے خاندان والوں کے لئے تہاری طرف سے اس میں کوئی ذلت نہیں کہ اگر تم چاہو تو میں تمہارے پاس سات رات رہوں اور پھر دوسری تمام بیویوں کے پاس بھی سات سات رات تک رہوں اور اگر تم چاہو تو تمہارے پاس تین رات تک رہوں اور پھر اس کے بعد دورہ کروں (یعنی تمام بیویوں کے پاس بھی تین تین رات تک رہوں) حضرت ام سلمہ نے یہ سن کر کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تین راتیں رہئے ۔ ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام سلمہ سے فرمایا کہ کنواری کے پاس سات رات تک رہنا چاہئے اور ثیبہ کے پاس تین رات تک(مسلم) تشریح : اس میں کوئی ذلت نہیں ہے کا مطلب یہ ہے کہ میں تمہارے پاس جو تین رات رہوں گا تو اس کی وجہ سے تمہارے خاندان و قبیلہ پر کسی حقارت یا ذلت کا داغ نہیں لگے گا کیونکہ تمہارے ساتھ میرا تین رات تک رہنا تمہاری صحبت و اختلاط سے بے رغبتی کے سبب سے نہیں ہے بلکہ شرعی حکم کی بناء پر ہے ان الفاظ کے ذریعہ گو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عذر کی تمہید بیان فرمائی ہے جس کی وجہ سے شادی کی ابتداء کے ایام میں حضرت ام سلمہ کے ہاں شب باشی کے لئے صرف تین راتوں پر اکتفاء کرنا پڑا اور وہ عذر یہ شرعی حکم ہے کہ اگر اپنی پہلی بیوی کی موجودگی میں کسی اور عورت سے نکاح کیا جائے ۔ تو اس نئی بیوی کے ساتھ مسلسل سات دن تک شب باشی اس صورت میں جائز ہو گی جب کہ وہ باکرہ کنواری ہو لیکن اس کے بعد پہلی بیویوں میں سے بھی ہر ایک کے ہاں سات سات دن تک شب باشی ہونی چاہئے۔ تا کہ باری کے اعتبار سے کسی کے ساتھ بے انصافی اور حق تلفی نہ ہو اور اگر وہ نئی بیوی ثیبہ ( کسی کی بیوہ یا مطلقہ) ہو تو پھر اسکے ساتھ ساتھ تین دین تک شب باشی کی جائے لیکن اس کے بعد پہلی بیویوں میں سے بھی ہر ایک کے ساتھ تین تین دن تک شب باشی کی جائے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام سلمہ کے سامنے اس مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر تم چاہو تو میں تمہارے یہاں بھی سات راتوں تک رہ سکتا ہوں لیکن یہ حق کنواری عورت کے لئے ہے اور تم ثیبہ ہو اور پھر یہ کہ بعد میں مجھے دوری تمام بیویوں کے پاس بھی سات سات راتوں تک رہنا ہوگا اس لئے یہتر یہ ہے کہ ثیبہ کے حق میں جو حکم ہے اسی کے مطابق میں تمہارے پاس تین دن تک شب باشی کروں اور پھر بعد میں ہر ایک بیوی کے ہاں تین تین دن تک شب باشی کر کے تمہارے سب کے درمیان باری مقرر کر دوں لہذا حضرت ام سلمہ نے منشاء شریعت اور مزاج نبوت کے مطابق اسی بات کو قبول کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں تین رات تک رہیں ۔
-