سجدہ میں ہاتھوں اور کہنیوں کو رکھنے کا طریقہ

وَعَنِ الْبَرَآءِ ابْنِ عَازِبٍ صقَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا سَجَدْتَّ فَضَعْ کَفَّےْکَ وَارْفَعْ مِرْفَقَےْکَ۔ (صحیح مسلم)-
" اور حضرت براء ابن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " جب تم سجدہ کرو تو اپنے دونوں ہاتھ زمین پر رکھو اور کہنیوں کو زمین سے اونچا رکھو۔ " (صحیح مسلم) تشریح سجدہ میں ہاتھوں کو رکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ دونوں ہاتھوں کی ہتیھیلیاں زمین پر کانوں کے سامنے رکھی رہیں۔ انگلیاں آپس میں ملی ہوں، اور یہ کہ ہاتھ کھلے رہیں کسی کپڑے وغیرہ کے اندر انہیں چھپا نا مکروہ ہے۔ " کہنیوں کو اونچا رکھنے" کے دو ہی معنی ہو سکتے ہیں یا تو یہ کہ دونوں کہنیاں زمین سے اونچی رہیں یا پھر یہ کہ دونوں پہلوؤں سے اونچی رہیں۔ بہر صورت یہ حکم خاص طور پر مردوں کے لیے ہے عورتیں اس حکم میں شامل نہیں ہیں کیونکہ عورتوں کو تو سجدے میں کہنیوں کو زمین پر پہلوؤں سے ملی ہوئی رکھنے کا حکم ہے اس لیے کہ اس طرح جسم کی نمائش نہیں ہوتی اور پردہ اچھی طرح ہوتا ہے۔
-
وعن میمونۃ قالت کان النبی صلی اﷲعلیہ وسلم اذا سجد جافی بین یدیہ حتی لوان بھمۃ ارادت ان تمر تحت یدیہ مرت ھذا لفظ ابی داؤد کما صرح فی شرح النسۃ با سنادہ و لمسلم بمعناہ قالت کان النبی صلی اللہ علیہ وسلماذا سجد لو شائت بھمۃ ان تمربین لمرت۔-
" اور ام الومنین حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتے ہیں کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدے میں جاتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کے درمیان اتنا فرق رکھتے تھے کہ اگر بکری کا بچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں کے نیچے سے گذرنا چاہئے تو گذر سکتا تھا۔" یہ الفاط ابوداؤد کے ہیں جیسا کہ خود بغوی نے شرح السنتہ میں اپنی سند کے ساتھ بیان کیا ہے اور مسلم نے یہ حدیث بالمعنی نقل کی ہے (جس کے الفاظ یہ ہیں) کہ حضرت میمونہ نے رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا ۔ " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (اس طرح) سجدے کرتے تھے کہ اگر بکری کا بچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں میں سے نکلنا چاہتا تو نکل جاتا۔" تشریح ہاتھوں کے درمیان فرق رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں اپنے دونوں بازو پہلو سے اور پیٹ اور ران سے الگ رکھتے تھے۔ حدیث میں بکری کے بچے کے لیے " بھمۃ" کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ بھمۃ بکری کے اس بچہ کو کہتے ہیں جو بڑا ہو کر اپنے پاؤں چلنے لگتا ہے اور جب بکری کا بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس وقت اسے " سخلۃ" کہتے ہیں۔ " ہذا لفظ ابی داؤد" سے مصنف مشکوٰۃ کا مقصد صاحب مصابیح پر اعتراض کرنا ہے کہ اس حدیث کو جس کے الفاظ ابوداؤد کے ہیں۔ پہلی فصل میں نقل کرنا نہیں چاہئے تھا کیونکہ پہلی فصل میں تو صرف شیخین یعنی البخاری و مسلم کی روایت کردہ احادیث ہی نقل کی جاتی ہیں۔
-
وَعَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَالِکٍ ابْنِ بُحَےْنَۃَص قَالَ کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا سَجَدَ فَرَّجَ بَےْنَ ےَدَےْہِ حَتّٰی ےَبْدُوَ بَےَاضُ اِبْطَےْہِ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت عبداللہ ابن مالک ابن بحینہ فرماتے ہیں کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ کر تے تو اپنے ہاتھوں کو اتنا کشادہ رکھتے تھے کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی ظاہر ہو جاتی تھی۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح بحینہ حضرت عبدا اللہ کی والدہ کا نام ہے اور مالک ان کے والد کا نام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مالک اور ابن کے درمیان کے الف کو باقی رکھ کر مالک کو تنوین کے ساتھ پڑھتے ہیں تاکہ لوگوں کو یہ غلط فہمی نہ ہو جائے کہ مالک بحینہ کے بیٹے کا نام ہے بلکہ یہ جانیں کے بحینہ کے لڑکے حضرت عبداللہ ہی ہیں اور ابن مالک و ابن بحینہ دونوں نسبتیں انہیں کی ہیں۔ بہر حال۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبدا اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب نماز پڑھتے دیکھا تھا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بدن مبارک پر کپڑا نہ تھا، یا ان کی مراد یہ ہوگی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بغل کی جگہ معلوم ہوتی تھی اور " بغلوں کی سفیدی" اس لیے کہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بغل مبارک بالکل سفید اور صاف و شفاف تھی جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پورا بدن ہی آئینہ کی طرح سفید اور صاف و شفاف تھا، دوسرے لوگوں کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بغلیں سیاح اور مکدر نہ تھیں۔
-