سجدہ تلاوت قاری اور سامع دونوں پر واجب ہوتا ہے

وَعَنْہُ اَنَّہُ قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم یَقْرَأُ عَلَیْنَا الْقُرْاٰنَ فَاِذَا مَرَّبِا السَّجْدَۃ کَبَّرَوَ سَجَدْنَا مَعَہ،۔(رواہ ابوداؤد)-
" اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کو نین صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سامنے قرآن کریم پڑھتے اور جب سجدے کی کسی آیت پر پہنچتے تو تکبیر کہتے اور سجدہ کرتے اور ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سجدہ کرتے تھے۔" (ابوداؤد) تشریح اس حدیث سے یہ بات بصراحت معلوم ہوگئی کہ سجدہ تلاوت قاری (یعنی قرآن کریم پڑھنے والے ) اور سامع (یعنی تلاوت سننے والے ) دونوں پر واجب ہے۔ صرف سجدے کے وقت تکبیر کہنی چاہیے : یہ حدیث اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ سجدہ تلاوت کے لیے تکبیر صرف سجدے میں جاتے وقت کہنی چاہیے چنانچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا اسی پر عمل ہے۔ البتہ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک یہ مسئلہ ہے کہ جب کوئی آدمی سجدہ تلاوت کرے تو اسے پہلے ہاتھ اٹھا کر تکبیر تحریمہ کہنی چاہیے اس کے بعد سجدے کے لیے دوسری تکبیر کہے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ اللہ تعالیٰ عنہا کی ایک روایت کی روشنی میں یہ ثابت ہے کہ سجدہ تلاوت کے وقت پہلے کھڑے ہونا اور اس کے بعد سجدے میں جانا مستحب ہے۔
-
وَعَنْہ، اَنَّہُ قَالَ اِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم قَرَأَ عَامَ الفَتْحِ سَجِدَۃً فَسَجَدَ النَّاسُ کُلُّھُمْ مِنْھُمْ الرَّاکِبُ وَالسَّاجِدُ عَلَی الْاَرْضِ حَتّٰی اَنَّ الرَّاکِبَ لَیَسْجُدُ عَلٰی یَدِہٖ۔ (رواہ ابوداؤد)-
" اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کو نین صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے سال (کوئی) آیت پڑھی چنانچہ تمام لوگوں نے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ) سجدہ تلاوت کیا سجدہ کرنے والوں میں سے بعض تو سواریوں پر تھے (اور بعض زمین پر تھے سواریوں والے اپنے ہاتھ ہی پر سجدہ کرتے تھے۔" (ابوداؤد) نشریج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یا تو آیت سجدہ کے ساتھ کچھ اور آیتیں بھی ملا کر پڑھی ہوں گی یا پھر محض آیت سجدہ بیان جواز کے لیے پڑھی ہوگی، کیونکہ حنفیہ کے مسلک کے مطابق صرف آیت سجدہ کی تلاوت کرنا خلاف استحباب ہے۔ " سواریوں والے اپنے ہاتھ ہی پر سجدہ کرتے تھے" کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اپنی سواریوں مثلاً گھوڑے وغیرہ پر بیٹھے ہوئے تھے وہ اپنے ہاتھوں کو زین وغیرہ پر رکھ کر ان پر سجدہ کرتے تھے اس طرح انہیں حالت سجدہ میں زمین کی سی سختی حاصل ہو جاتی تھی۔ حضرت ابن ملک فرماتے ہیں کہ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اگر کوئی آدمی گردن جھکا کر اپنے ہاتھوں پر سجدہ کرے تو اس کا سجدہ جائز ہو جائے گا اور یہی قول حضرت امام ابوحنیفہ کا ہے البتہ حضرت امام شافعی کا یہ قول نہیں ہے۔ ابن ملک نے حضرت امام اعظم کا جو یہ قول ذکر کیا ہے یہ ان کے مسلک میں غیر مشہور ہے چنانچہ شرح منیہ میں لکھا ہے کہ اگر کوئی آدمی ہجوم واژدہام کی وجہ سے اپنی ران پر سجدہ کر لے تو جائز ہوگا اسی طرح ران کے علاوہ کسی دوسرے عضو پر بھی سجدہ کرنا جائز ہے جب کہ اسے کوئی ایسا عذر پیش ہو جو سجدہ کرنے سے مانع ہو، بغیر عذر ایسا کرنا جائز نہ ہوگا نیز اگر کوئی آدمی اپنا ہاتھ زمین پر رکھ کر اس پر سجدہ کر لے تو اگرچہ اسے کوئی عذر نہ ہو یہ جائز ہے مگر مکروہ ہوا۔ ابن ہمام نے لکھا ہے کہ اگر کوئی آدمی بیمار ہو سجدے کی کوئی آیت پڑھے اور سجدہ کرنے پر قادر نہ ہو تو اسے سجدے کا اشارہ کر لینا کافی ہوگا۔
-