ستر ڈھانکنے کا بیان

--
نماز صحیح طور پر ادا ہونے کی جہاں اور بہت سی شرائط ہیں ان میں ایک شرط ستر (یعنی شرم ) گاہ کا چھپانا بھی ہے۔ چنانچہ مشکوٰۃ کے مصنف اس باب میں اسی سلسلہ کی حدیثیں بیان کریں گے اس کے علاوہ اس باب میں مصنف ان لباسوں کے بارے میں بھی احادیث نقل کریں گے جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے نمازیں میں پڑھیں ہیں۔
-
َنْ عُمَرَ بْنِ اَبِیْ سَلَمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ رَأَےْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ےُصَلِّیْ فِیْ ثَوْبٍ وَاحِدٍ مُّشْتَمِلًا بِہٖ فِیْ بَےْتِ اُمِّ سَلَمَۃَ وَاضِعًا طَرَفَےْہِ عَلٰی عَاتِقَےْہِ ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" حضرت عمر ابن ابی سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو پاک کپڑے میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مکان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کپڑے کو اپنے جسم سے اس طرح لپیٹے ہوئے تھے کہ اس کے دونوں کنارے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھوں پر تھے۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح " اشتمال" اسے کہتے ہیں کہ کپڑے کا وہ کنارہ جو داہنے کندھے پر ہے بائیں ہاتھ کے نیچے سے نکالا جائے اور پھر وہ کنارا لے کر جو دائیں ہاتھ کے نیچے سے بائیں ہاتھ پر ڈالا گیا ہے دونوں کو ملا کر سینے پر گرہ لگائی جائے لیکن گرہ لگانے کی ضرورت صرف اس صورت میں ہوتی ہے جب کہ کپڑے کے کنارے لمبے نہ ہوں اور ان کے کھل جانے کا خون ہو، اگر کنارے لمبے ہوں تو پھر گرہ لگانے کی ضرورت نہیں ہوتی جیسا کہ یمن کے سفیروں کے لباس سے ظاہر ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بعض شارحین کی عبارتوں میں گرہ لگانے کی قید ذکر نہیں کی گئی ہے۔ ان احادیث میں " مشتمل " متوشح اور مخالف بین طرفیہ کے جو الفاظ آئے ہیں سب کے ایک ہی معنی ہیں اور سب کی ایک ہی مذکور بالا صورت ہوتی ہے۔
-
وَعَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ ص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم لَا ےُصَلِّےَنَّ اَحَدُکُمْ فِی الثَّوْبِ الْوَاحِدِ لَےْسَ عَلٰی عَاتِقَےْہِ مِنْہُ شَئٌ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
' اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، تم میں کوئی آدمی ایک کپڑے میں (اس طرح) نماز نہ پڑھے کہ اس کے کپڑے کا کچھ حصہ کندھوں پر نہ ہو۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح مطلب یہ ہے کہ اشتمال کی صورت میں تو نماز پڑھنے کی اجازت ہے کیونکہ اس میں کپڑے کا کچھ حصہ کندھوں پر ہوتا ہے اور اگر کندھے پر کپڑے کا کچھ حصہ بھی نہ ہو تو اس صورت میں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہوگی اور اس کی حکمت علماء یہ لکھتے ہیں کہ صرف ایک ہی کپڑا اگر ہو اور اسی کا تہ بند کر لیا جائے اور اس کا کچھ حصہ کندھوں پر ڈالا نہ جائے تو اس صورت میں ستر کھل جانے کا اندیشہ رہتا ہے اور پھر یہ کہ رب ذوالجلال کے دربار میں حاضری کا وقت ہونے کی وجہ سے یہ بے ادبی کی شکل ہے۔ حضرت امام اعظم، حضرت امام مالک، حضرت امام شافعی اور جمہور علماء رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم کے نزدیک یہ نہی تنزیہی ہے تحریمی نہیں ہے۔ چنانچہ یہ حضرات فرماتے ہیں کہ اگر کوئی آدمی صرف ایک کپڑے میں اس طرح نماز پڑھے کہ اس کے کپڑے کا کچھ حصہ کندھوں پر نہ ہو مگر ستر چھپا ہوا ہو تو اس کی نماز ہو جائے گی لیکن کراہت کے ساتھ ہوگی۔ حضرت امام احمد اور دوسرے علماء سلف رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم ظاہر حدیث پر عمل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس صورت میں اس آدمی کی نماز نہیں ہوگی۔
-
وَعَنْہُ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ےَقُوْلُ مَنْ صَلّٰی فِیْ ثَوْبٍ وَّاحِدٍ فَلْےُخَالِفْ بَےْنَ طَرْفَےْہِ۔ (صحیح البخاری)-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جو آدمی صرف ایک کپڑے میں نماز پڑھے تو اسے چاہئے کہ اس کپڑے کی دونوں طرفوں میں مخالفت رکھے (یعنی اشتمال کی جو صورت بیان کی گئی ہے وہی اختیار کرے۔)۔" (صحیح البخاری )
-
وَعَنْ عَآئِشَۃَ قَالَتْ صَلّٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فِیْ خَمِےْصَۃٍ لَّھَا اَعْلَامٌ فَنَظَرَ اِلٰی اَعْلَامِھَا نَظْرَۃً فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ اذْھَبُوْا بِخَمِےْصَتِیْ ھٰذِہِ اِلٰی اَبِیْ جَھْمٍ وَّاْتُوْنِیْ بِاَنْبِجَانِےَّۃِ اَبِیْ جَھْمٍ فَاِنَّھَا اَلْھَتْنِیْ اٰنِفًا عَنْ صَلٰوتِیْ مُتَّفَقٌ عَلَےْہِ وَفِیْ رَوَاےَۃٍ لِلْبُخَارِیِّ قَالَ کُنْتُ اَنْظُرُ اِلٰی عَلَمِھَا َواَنَا فِی الصَّلٰوۃِ فَاَخَافُ اَنْ ےَّفْتِنَنِیْ ۔-
" اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسی چادر میں نماز پڑھی جس کے کنارے دوسرے رنگ کے تھے یا اس کے کناروں پر کچھ کام کیا ہوا تھا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کئے ہوئے کام کو دیکھا اور جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ اس چادر کو ابی جہم کے پاس لے جاؤ (اور اسے اس کے حوالہ کر کے) ابی جہم کی انبجانیہ لے آؤ کیونکہ اس چادر نے مجھے میری نماز میں حضوری قلب کی دولت سے باز رکھا ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) اور صحیح البخاری کی ایک روایت میں (یہ بھی منقول ہے کہ ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " میں نماز کے دوران اس چادر کے نقش و نگار کی طرف دیکھنے لگا اور مجھے یہ اندیشہ ہوا کہ کہیں یہ میری نماز خراب نہ کر دے۔" تشریح خمیصہ ایک چادر کو کہتے ہیں جو خز کی یا صوف کی ہوتی ہے جس کا رنگ سیاہ ہوتا ہے اور دھاری دار ہوتی ہے لہٰذا جملہ " لھا اعلام" یا تو خمیصہ کی تاکید ہے یا اس کا بیان ہے۔ یہ چادر ایک صحابی حضرت ابوجہم نے تحفہ کے طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت لائے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اس کو اوڑھ کر نماز پڑھی اور نماز کے آداب کے دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر اس کی دھاریوں پر پڑی تو تو قلب مبارک میں کچھ فرق محسوس ہوا، چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوگئے تو صحابہ سے فرمایا کہ اسے ابوجہم کو واپس کر آؤ، چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خیال ہوا کہ ہو سکتا ہے کہ اس چادر کو واپس کر دینے سے ایک مخلص صحابی کی دل شکنی ہو اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرما دیا کہ اس کے بدلہ میں ان سے انبجانیہ لے آؤ۔ انبجان ایک شہر کا نام ہے اس شہر کی بنی ہوئی چاردیں بالکل سیاہ ہوتی تھیں۔ اس شہر کی مناسبت سے چادر کو انبجانیہ کہا جاتا تھا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ظاہری نقش و نگار پاک نفوس اور صاف قلوب کو بھی متاثر کرتے ہیں اور یہ تاثیر قلب کی انتہائی صفائی اور لطافت کی بناء پر ہوتی ہے جیسے کہ کسی صاف و شفاف اور سفید چادر پر ایک معمولی سیاہ سا نقطہ بھی پڑ جاتا ہے تو فوراً ظاہر ہو جاتا ہے اور ناگوار محسوس ہوتا ہے اور چادر جنتی زیادہ سفید ہوتی ہے وہ سیاہ نقطہ اتنا ہی زیادہ ظاہر ہوتا ہے۔ یہی حال ان نفوس قدسیہ کا ہے جس کے قلب و دماغ تعلق مع اللہ اور ریاضت و مجاہدہ کی بناء پر اتنے پاک و صاف ہو جاتے ہیں کہ گناہ و معصیت الگ ہے کسی معمولی مباح شے کا ادنی سا تصور بھی قلب و دماغ پر اثر انداز ہو جاتا ہے لیکن ان کے مقابلے پر آلود گان تیرہ باطن بھی ہوتے ہیں جن کے دل و دماغ پر بڑے بڑے گناہ کا بھی اثر نہیں ہوتا۔ ہمارا خیال ہے کہ اس حدیث کے ذریعے اصل امت کو یہ تعلیم دینا مقصد ہے کہ نماز کے سلسلے میں ایسی چیزوں سے احتیاط رکھنی چاہئے جو نماز میں دھیان بٹانے کا سبب بنتی ہوں۔
-
وَعَنْ اَنَسٍ ص قَالَ کَانَ قِرَامٌ لِّعَائِشَۃَرضی اللہ عنہ سَتَرَتْ بِہٖ جَانِبَ بَےْتِھَا فَقَالَ لَھَا النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلماَمِےْطِیْ عَنَّا قِرَامَکِ ھٰذَا فَاِنَّہُ لَا ےَزَالُ تَصَاوِےْرُہُ تَعْرِضُ لِیْ فِیْ صَلٰوتِیْ۔(صحیح البخاری)-
" اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنے مکان کے ایک حصے میں ایک پردہ ڈال رکھا تھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا کہ اس پردے کو ہمارے سامنے سے ہٹا لو کیونکہ اس کی تصویریں نماز میں برابر میری سامنے رہتی ہیں۔" (صحیح البخاری ) تشریح بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ پردہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دیوار گیری کے طور پر دیوار پر لگا رکھا ہوگا مگر بعض حضرات فرماتے ہیں کہ یہ پردہ چھپر کھٹ کر طریقے پر تھا۔ بہرحال حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے یہ پردہ اسی وقت سے لگا رکھا ہوگا جب تک کہ انہیں حدیث نہی معلوم نہیں ہوئی ہوگی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں منع فرما دیا تو انہوں نے وہ پردہ اتار ڈالا۔
-
وَعَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍقَالَ اُھْدِیَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَرُّوْجُ حَرِےْرٍ فَلَبِسَہُ ثُمَّ صَلّٰی فِےْہِ ثُمَ انْصَرَفَ فَنَزَعَہُ نَزْعًا شَدِےْدًا کَالْکَارہٖ لَہ، ثُمَّ قَالَ لَا ےَنْبَغِیْ ھٰذَا لِلْمُتَّقِےْنَ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت عقبہ ابن عامر فرماتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں کسی نے ایک ریشمی قبا تحفہ کے طور پر بھیجی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پہن کر نماز پڑھ لی نماز پڑھنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قبا کو اس طرح اتار پھینکا جیسے کوئی بہت برا جانتا ہو پھر فرمایا کہ (ریشمی کپڑے شرک و کفر سے) بچنے والوں کے لائق نہیں۔ " (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح " فروج" اس قبا کو کہتے ہیں جس میں پیچھے کی طرف چاک ہوتا ہے۔ یہ فروج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اکیدر بادشاہ درومہ یا بادشاہ اسکندریہ نے تحفۃ بھیجی تھی۔ چونکہ اس وقت مردوں کو ریشمی کپڑا پہننا حرام نہیں تھا اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے زیب تن فرمالیا اور اس میں نماز پڑھ لی مگر یہ سوچ کر کہ ریشمی کپڑا پہننے سے رعونت پائی جاتی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ناپسند فرما کر اتار دیا۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس عمل سے یہ ظاہر فرما دیا کہ اگرچہ اس کا پہننا مباح ہے لیکن اللہ کے نیک بندے اور متقی و پرہیز گار لوگ چونکہ عزیمت پر عمل کرتے ہیں اس لیے ان کے لیے یہ مناسب اور بہترین نہیں ہے کہ وہ ریشمی کپڑا پہنیں۔ پھر بعد میں ریشم کا پہننا تمام مسلمان مردوں کے لیے خواہ متقی ہوں یا غیر متقی، حرام ہوگیا ہے۔ یا پھر ہو سکتا ہے کہ یہ نہی اس حالت میں ہوئی ہو تو اس صورت میں متقی عن الشرک مراد ہوگا یعنی مسلمانوں کو یہ پہننا نہ چاہئے۔
-
عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ الْاَکْوَعِ قَالَ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اﷲِ اِنِّی رَجُلٌ اَصِیْدُ اَفَاُصَلِّی فِی الْقَمِیْصِ الْوَاحِدِ قَالَ نَعَمْ وَازْرُوْہُ وَلَوْ بِشَوْکَۃِ۔ (رواہ ابوداؤد والنسائی نحوہ)-
" اور حضرت سلمہ ابن اکوع رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! میں ایک شکاری آدمی ہوں، کیا میں ایک ہی کرتے میں نماز پڑھ لیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں (پڑھ لیا کرو) لیکن اسے باندھ لیا کرو خواہ اسے کانٹے ہی سے کیوں نہ اٹکا لیا جائے۔ " (ابوداؤد ، سنن نسائی) تشریح چونکہ شکاری لوگ شکار میں کم کپڑے پہنتے ہیں اور زیادہ کپڑے پہننے سے شکار کرنے میں رکاوٹ ہوتی ہے اس لیے اس صحابی کے سوال کا مقصد یہ تھا کہ میں چونکہ شکار کھیلنے والا آدمی ہوں اور شکار کے وقت عموماً صرف ایک کرتا ہی پہنے ہوئے ہوتا ہوں اس کے نیچے لنگی بھی نہیں ہوتی تاکہ شکار کے پیچھے دوڑنے میں آسانی رہے تو کیا میں صرف ایک کرتہ ہی میں نماز پڑھ لیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم ایک کرتہ ہی میں نماز پڑھ سکتے ہو لیکن اس کرتے کا چاک اگر اتنا کھلا ہوا ہو کہ رکوع و سجود کے وقت ستر کھلنے کا اندیشہ رہے تو اس کے چاک کو باندھ لیا کرو۔ اگر اس وقت چاک بند کرنے کی کوئی چیز موجود نہ ہو تو اس میں کانٹا لگا کر ہی اسے بند کر لیا کرو تاکہ ستر نہ کھلے۔
-
وَعَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ قَالَ بِیْنَمَا رَجُلٌ یُصَلِّی مُسْبِلٌ اِزَارَہُ قَالَ لَہ، رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذْھَبْ فَتَوَضَّأَ فَذَھَبَ وَتَوَضَأَ ثُمَّ جَآءَ فَقَالَ رَجُلٌ یَا رَسُوْلَ اﷲِ مَالَکَ اَمَرْتَہُ اَنْ یَتَوَضَّأَ قَالَ اِنَّہُ کَانَ یُصَلِّی وَھُوَ مُسْبِلٌ اِزَارَہُ وَاِنَّ اﷲَ لَا یَقْبَلُ صَلَاۃَ رَجُلٍ مُسْبِلٍ اِزَارَہُ۔(رواہ ابوداؤد)-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی ازار لٹکائے ہوئے نماز پڑھ رہا تھا سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ دیکھ کر) اس سے فرمایا کہ، " جاؤ اور وضو کرو!" وہ آدمی جا کر وضو کر آیا۔ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) نے اس آدمی کو وضو کرنے کے لیے کیوں فرمایا ؟ (حالانکہ وہ باوضو تھا ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ، وہ آدمی اپنا ازار لٹکائے ہوئے نماز پڑھ رہا تھا اور جو آدمی ازار لٹکائے ہوے ہو اللہ تعالیٰ اس کی نماز قبول نہیں کرتا۔ " (ابوداؤد) تشریح " اسبال" اسے فرماتے ہیں کہ کوئی بھی کپڑا اتنا لمبا پہنا جائے کہ وہ نازوتکبر کے طور پر نیچے زمین تک لٹکا ہوا ہو۔ گویہ ازار ہی کے ساتھ مخصوص نہیں ہے لیکن اس کا استمال اکثر و بیشتر ازار ہی کے لیے ہوتا ہے ۔ لہٰذا پائجامہ، لنگی اور کرتا وغیرہ غرور تکبر کی بناء پر ٹخنوں سے نیچے لٹکانا مکروہ ہے یہی وجہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کو ازار لٹکائے ہوئے نماز پڑھتے دیکھا تو فرمایا کہ جو آدمی ازار لٹکائے ہوئے ہوا اللہ تعالیٰ اس کی نماز قبول نہیں کرتا یعنی اللہ تعالیٰ ایسے آدمی کی نماز کو کمال قبول نہیں کرتا اور ثواب نہیں دیتا اگرچہ اصل نماز ہو جاتی ہے۔ باوجود اس کے کہ وہ آدمی باوضو تھا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے وضو کرنے کا حکم اس حکمت کی بناء پر دیا تاکہ وہ آدمی اس کا سبب معلوم کرنے میں غور و فکر کرے اور پھر اسے اس فعل شنیع کی برائی کا احساس ہو، نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی برکت اور ظاہری طہارت یعنی وضو کی وجہ سے اس کا باطن غرور و تکبر کی آلائش سے پاک و صاف کر دے کیونکہ ظاہری طہارت باطنی صفائی و پاکیزگی کا ذریعہ بن جاتی ہے۔
-
وَعَنْ عَآئِشَۃَ قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا تُقْبَلُ صَلَاۃُ حَائِضٍ اِلَّابِخِمَارٍ۔ (رواہ ابوداؤد والترمذی)-
" اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، بالغہ عورت کی نماز بغیر دوپٹے کے (یعنی سرڈھانکے بغیر) نہیں ہوتی۔" (ابوداؤد ، جامع ترمذی ) تشریح " حائض " سے مراد بالغہ عورت ہے جو حیض کی عمر کو پہنچ جائے خواہ اسے حیض آتا ہو یا نہ آتا ہو ۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عورت کا سر اور اس کے بال ستر میں شامل ہیں لہٰذا اگر کوئی عورت ننگے سر نماز پڑھے گی تو اس کی نماز نہیں ہوگی۔ اسی طرح اگر عورت اتنا باریک کپڑا اوڑھ کر نماز پڑھے کہ اس کپڑے میں سے بال یا بدن کا رنگ دکھائی دیتا ہو تو اس کی نماز نہیں ہوتی لیکن یہ سمجھ لیں کہ یہ حکم آزاد عورت کا ہے لونڈی اس حکم میں داخل نہیں ہے تو اس کی نماز ننگے سر بھی ہو جاتی ہے۔ کیونکہ اس کا سر ستر نہیں اس کا ستر مرد کی طرح ناف کی نیچے سے زانو کے نیچے تک نیز پیٹ، پیٹھ اور پہلو بھی۔
-
وَعَنْ اُمِّ سَلَمَۃَ اَنَّھَا سَأَلَتْ رَسُوْلَ اﷲِ صَلَّی اﷲُعَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَتُصَلِّی الْمَرْأَۃُ فِی دِرْعٍ وَمَارٍلَیْسَ عَلَیْھَا اِزَارٌ قَالَ اِذَا کَانَ الدِّرْعُ سَابِغًا یُغَطِّی ظُھُوْرَ قَدَمَیْھَا۔ رَوَاہُ اَبُوْدَاؤدَ وَذَکَرَ جَمَاعَۃً وَقَفُوْہُ عَلَی اُمِّ سَلَمَۃَ۔-
" اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اگر عورت کے پاس تہمد (یعنی پائجامہ وغیرہ) نہ ہو اور وہ صرف دوپٹہ اور کرتہ میں نماز پڑھ لے تو اس کی نماز ہو جائے گی یا نہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (ہاں ہو جائے گی) بشرطیکہ کرتہ اتنا لمبا ہو کہ اس سے اس کے پاؤں کی پشت چھپ جاتی ہو۔ (ابوداؤد) اور ابوداؤد نے کہا کہ ایک جماعت نے اس روایت کو ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر موقوف قرار دیا ہے یعنی انہوں نے کہا ہے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نہیں ہے بلکہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا قول ہے۔" تشریح یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عورت کے پاؤں کی پشت بھی ستر میں شامل ہے اس کو نماز میں ڈھا نکنا واجب ہے۔
-
وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ اَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم نَھٰی عَنِ السَّدْلِ فِی الصَّلَاۃِ وَاَنْ یُغَطِّیَ الرَّجُلُ فَاہُ۔ (رواہ ابوداؤد والترمذی)-
" حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں سدل کرنے اور مرد کو منہ ڈھانکنے سے منع فرمایا ہے۔" (سنن ابوداؤد، جامع ترمذی ) تشریح " سدل" کے معنی یہ ہیں کہ کپڑے کو اپنے سر یا کندھوں پر ڈال کر دونوں طرف سے اسے لٹکا دیا جائے چنانچہ کپڑا استعمال کرنے کا یہ طریقہ مطلقاً ممنوع ہے کیونکہ اس سے غرور و تکبر کی شان پیدا ہوتی ہے اور نماز میں تو یہ طریقہ بہت ہی برا ہے۔ اس طرح نماز پڑھنے سے نماز مکروہ ہو جاتی ہے۔ بعض علماء فرماتے ہیں کہ " سدل" کا مطلب یہ ہے کہ کوئی آدمی کپڑا اوڑھ کر اپنا ہاتھ اس کے اندر کرے اور اسی طرح رکوع و سجدہ کرتا رہے۔ چونکہ یہ طریقہ یہودیوں کا تھا اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے عرب میں پگڑی کے کونہ سے منہ پر ڈھاٹا باندھ لیتے تھے جس سے دہانہ چھپ جاتا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں اس سے بھی منع فرمایا ہے کیونکہ اس طرح نہ تو قرات اچھی طرح ہوتی ہے اور نہ سجدہ پورے طور پر ہوتا ہے۔ ہاں اگر نماز میں کسی کو ڈکار آئے یا منہ سے بدبو آئے تو اسے ہاتھ سے منہ ڈھانک لینا مستحب ہے۔
-
وَعَنْ شَدَادِبْنِ اَوْسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَالِفُوْا الْیَھُوْدَ فَاِنَّھُمْ لَا یُصَلُّوْنَ فِی نِعَا لِھِمْ وَلَا خِفَافِھِمْ۔ (رواہ ابوداؤد)-
" اور حضرت شداد ابن اوس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، (جوتے اور موزے پہن کر نماز پڑھنے میں) یہودیوں کی مخالفت کرو کیونکہ وہ لوگ جوتے اور موزے پہن کر نماز نہیں پڑھتے۔" (ابوداؤد) تشریح یہودی جوتے اور موزے پہن کر نماز نہیں پڑھتے تھے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ یہودیوں کی مخالفت کرو اور جوتے پہن کر (اگر وہ پاک و صاف ہوں ) اور موزے پہن کر نماز پڑھ لیا کرو۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ گمراہ لوگوں کی مخالفت ظاہر کرنے کی غرض سے کسی مباح چیز پر عمل کرنا بہتر ہے اور وجہ یہ ہے کہ اس طرح چونکہ گمراہ لوگوں کی مخالفت لازم آتی ہے اس لیے وہ مباح چیز بھی عزیمت یعنی اولویت کا حکم پیدا کر دیتی ہے۔
-
وَعَنْ اَبِی سَعِیْدٍالخُدْرِیِّ قَالَ بَیْنَمَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم یُصَلِّی بِاَصْحَابِہٖ اِذْ خَلَعَ نَعْلَیْہِ فَوَضَعَھُمَا عَنْ یَسَارِہِ فَلَمَّا رَایْ ذٰلِکَ القَوْمُ اَلْقُوْا نِعَالَھُمْ فَلَمَّا قَضَی رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلمصَلَاتَہ، قَالَ مَا حَمَلَکُمْ عَلَی اِلْقَائِکُمْ نِعَالَکُمْ قَالُوْا رَاَیْنَکَ اَلْقَیْتَ نَعْلَیْکَ فَاَلْقَیْنَا نِعَالَنَا فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اِنَّ جِبْرِیْلَ اَتَانِی فَأَخْبَرَنِی اَنَّ فِیْھِمَا قَذَرًا اِذَا جَآءَ اَحَدُکُمُ الْمَسْجِدَ فَلْیَنْظُرْ فَاِنْ رَایَ فِی نَعْلَیْہِ قَذَرًا فَلْیَمْسَحُہ، وَالْیُصَلِّ فِیْھِمَا۔ (رواہ ابوداؤد و الدارمی)-
" اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ایک مرتبہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کو نماز پڑھا رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اچانک اپنے جوتے اتار کر اپنی بائیں طرف (دور ہٹا کر) رکھ لیے جب لوگوں نے یہ دیکھا تو انہوں نے بھی اپنے جوتے اتار ڈالے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہوگئے تو فرمایا کہ تمہیں جوتے اتارنے پر کس چیز نے مجبور کر دیا تھا؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہم نے دیکھا کہ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنے جوتے اتار ڈالے ہیں اس لیے ہم نے بھی اپنے جوتے اتار ڈالے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (اس لیے میں نے تو جوتے اس لیے اتارے تھے کہ) میرے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے اور انہوں نے خبر دی کہ میرے جوتوں میں نجاست لگی ہوئی ہے (اس لیے میں نے جوتے اتاردئیے تھے) تم میں سے جو آدمی مسجد میں آئے تو پہلے وہ اپنے جوتے دیکھ لیا کرے۔ اگر ان میں نجاست لگی ہوئی معلوم ہو تو انہیں صاف کر لے (اور انہیں پہنے ہی پہنے) نماز پڑھ لے۔" (سنن ابوداؤد، دارمی ) تشریح " قذر" (قاف کے زبر اور دال معجمہ کے ساتھ) اس چیز کو کہتے ہیں جسے طبیعت مکروہ رکھے اس لفظ سے بظاہر معلوم یہ ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جوتے میں ایسی نجاست نہیں لگی ہوگی جس سے نماز درست نہ ہوتی ہو بلکہ کوئی گھناؤ نی چیز جیسے رینٹھ وغیرہ لگی ہوگی کیونکہ اگر نجاست لگی ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم از سر نو نماز پڑھتے حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنی نماز پڑھ لی تھی نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا اعادہ کیا اور نہ از سر نو نماز پڑھی۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام کا خبر دینا اور پھر اس خبر کی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جوتوں کو اتار دینا اس لیے تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج اقدس میں چونکہ صفائی اور ستھرائی بہت زیادہ تھی اس لیے جوتوں پر اس گھناؤ نی چیز کا لگا رہنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج کے مناسب نہیں تھا اور بعض شوافع حضرات فرماتے ہیں کہ اگر کسی نمازی کے کپڑے وغیرہ پر نجاست لگی ہوئی ہو اور اسے اس کا علم نہ ہو تو نماز ہو جاتی ہے حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا یہ قول قدیم ہے۔ بہرحال۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت واجب ہے کیونکہ صحابہ نے کوئی سبب پوچھے بغیر محض آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جوتے اتارتے دیکھ کر اپنے جوتے فوراً اتار ڈالے اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسے جائز رکھا۔
-
وَعَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا صَلَّی اَحَدُکُمْ فَلَا یَضَعُ نَعْلَیْہِ عَنْ یَمِیْنِہٖ وَلَا عَنْ یَسَارِہٖ فَتَکُوْنَ عَنْ یَمِیْنِ غَیْرِہٖ اِلَّا اَنْ لَا یَکُوْنَ عَلَی یَسَارِہِ اَحَدٌ وَ لْیَضَعْھُمَا بَیْنَ رِجْلَیْہِ وَفِی رِوَایَۃٍ اَوْلِیُصَلِّ فِیْھِمَا۔ (رواہ ابوداؤد روی ابن ماجۃ، معناہ)-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ جب تم میں سے کوئی آدمی نماز پڑھنے کے لیے کھڑا ہو تو اپنے جوتے کو نہ اپنی دائیں طرف رکھے اور نہ بائیں طرف ہی رکھے کیونکہ ادھر دوسرے آدمی کی دائیں جانب ہوگی۔ ہاں اگر کوئی بائیں جانب نہ ہو تو ادھر رکھ لے (ورنہ) اسے چاہئے انہیں اپنے دونوں پیروں کے درمیان (یعنی اپنے آگے پیروں کے پاس) رکھ لے اور ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ یا " (اگر جوتے پاک ہوں تو ان کو اتارنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ) انہیں پہنے ہی پہنے نماز پڑھ لے۔" (سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ) تشریح مطلب یہ ہے کہ نماز کے دوران جوتے اپنی دائیں طرف نہ رکھے جائیں اور بائیں طرف بھی اس لیے نہ رکھے جائیں کہ جو آدمی اس کے بائیں طرف کھڑا ہوگا یہ جوتا جو اپنے بائیں طرف رکھا گیا ہے اس آدمی کے دائیں طرف پڑے گا۔ لہٰذا جب اپنی دائیں طرف جوتا رکھنا پسند نہ کیا تو اس جوتے کو دوسرے آدمی کے دائیں طرف کیوں رکھا جائے کیونکہ مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ جو چیز اپنے لیے پسند کرتا ہے اپنے ساتھی کے لیے بھی اس چیز کو پسند کرے اور جس چیز کو اپنے لیے نا پسند کرتا ہے اسے اپنے ساتھی کے لیے بھی نا پسند کرے۔
-
وَعَنْ اَبِیْ سَعِےْدٍنِ الْخُدْرِیِّ ص قَالَ دَخَلْتُ عَلَی النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم فَرَأَےْتُہُ ےُصَلِّیْ عَلٰی حَصِےْرٍ ےَسْجُدُ عَلَےْہِ قَالَ وَرَاَےْتُہُ ےُصَلِّیْ فِیْ ثَوْبٍ وَّاحِدٍ مُتَوَشِّحًا بِہٖ۔ (صحیح مسلم)-
" حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ میں سرور کائنات کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بوریہ پر نماز پڑھ رہے ہیں اور اسی پر سجدہ کر رہے ہیں۔ حضرت ابوسعید فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک کپڑا اوڑھے ہوئے جو اپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم پر لپٹا ہوا تھا نماز پڑھ رہے تھے۔" (صحیح مسلم) تشریح یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نماز ہر اس چیز پر جائز ہے جو نمازی اور زمین کے درمیان حائل ہو خواہ وہ چیز بوریہ وغیرہ کی قسم سے ہو یا کپڑے اور صوف وغیرہ کی قسم سے۔ گو اس حدیث میں صرف بوریے کا ذکر کیا گیا ہے لیکن علماء کے پاس اور دلائل ایسے ہیں جس کی رو سے وہ بوریے کے علاوہ کپڑے وغیرہ پر نماز پڑھنے کو جائز قرار دیتے ہیں۔ قاضی عیاض فرماتے ہیں کہ بغیر کچھ بچھائے ہوئے زمین پر نماز پڑھنا افضل ہے اس لیے کہ خشوع و خضوع نماز کی اصل روح ہے اور یہ چیزیں زمین پر نماز پڑھنے سے حاصل ہوتی ہیں ۔ ہاں اگر کوئی مجبوری ہو مثلاً سردی یا گرمی کی وجہ سے بغیر کچھ بچھائے ہوئے زمین پر نماز پڑھنا ممکن نہ ہو تو پھر کچھ بچھا لینا ہی بہتر ہوگا۔ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ جو چیزیں زمین سے اگی ہوئی نہ ہوں اس پر نماز پڑھنا بہتر نہیں ہے یعنی بوری وغیرہ پر نماز پڑھنا تو افضل و بہتر ہے اور کپڑے وغیرہ پر نماز پڑھنا بہتر نہیں ہے۔
-
وَعَنْ عَمْرِو ابْنِ شُعَیْبٍ عَنْ اَبِیْہٖ عَنْ جَدِّہِ قَالَ رَأَیْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم یُصَلِّیْ حَافِیًا وَّ مُنْتَعِلًا۔ (رواہ ابوداؤد)-
" اور حضرت عمر و بن شعیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی ننگے پاؤں اور کبھی جوتے پہنے ہوئے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔" (ابوداؤد)
-
وَعَنْ مُحَمَّدٍ بْنِ الْمُنْکَدِرِ قَالَ صَلّٰی جَابِرٌ فِیْ اِزَارٍ قَدْ عَقَدَہ' مِنْ قِبَلِ قَفَاہُ وَ ثَیِابُہ، مَوْضُوْعَۃٌ عَلَی الْمِشْجَبِ فَقَالَ لَہ، قَائِلٌ تُصَلِّیْ فِیْ اِزَارٍ وَاحِدٍ فَقَالَ اِنَّمَا صَنَعْتُ ذَلِکَ لِیَِرَانِی اَحْمَقُ مِثْلَکَ وَاَیُّنَا کَانَ لَہُ ثَوْبَانِ عَلٰی عَھْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم (رواہ البخاری)-
" اور حضرت محمد ابن منکدر فرماتے ہیں کہ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صرف تہبند باندھ کر جسے انہوں نے اپنی گدی کی طرف باندھ رکھا تھا نماز پڑھی حالانکہ ان کے کپڑے کھونٹی پر لٹکے ہوئے تھے ان سے کسی کہنے والے نے کہا کہ، آپ نے صرف تہبند میں نماز پڑھی ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ، میں نے یہ اس واسطے کیا تاکہ تم جیسا احمق مجھے دیکھے بھلا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہم میں سے وہ کون تھا جس کے پاس دو کپڑے تھے۔" (صحیح البخاری) تشریح " مشجب" کا عام فہم معنی کھونٹی ہی ہو سکتے ہیں کیونکہ مشجب اس چیز کو کہتے ہیں جس پر کپڑے لٹکائے یا رکھے جاتے ہیں یا اس چیز کو کہتے ہیں جس پر کبھی کبھی پانی ٹھنڈا ہونے کے لیے مشک لٹکا دی جاتی تھی۔ بہر حال حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے کپڑے اس پر رکھ دیے تھے اور نماز صرف ایک کپڑے میں اس طرح پڑھ رہے تھے کہ اس کپڑے کا تہبند کر رکھا تھا اور اس کے کونے اوپر کے گلے میں باندھ رکھے تھے چنانچہ ایک آدمی نے اس طریقے کو خلاف سنت سمجھتے ہوئے برا خیال کیا اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ آپ اتنے سارے کپڑوں کی موجودگی میں بھی صرف ایک کپڑے میں نماز پڑھ رہے ہیں تو آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کے جواب میں انہوں نے فرمایا کہ میں صرف ایک کپڑے میں نماز اس لیے پڑھ رہا ہوں تاکہ تم جیسا کم علم مجھے دیکھے اور جان لے کہ نماز صرف ایک کپڑے میں بھی پڑھی جا سکتی ہے یہ خلاف سنت نہیں ہے۔ چنانچہ آپ نے اسی مقصد کے تحت اسے ڈانٹا اور کہا کہ احمق تو اسے برا کیوں سمجھ رہا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زمانہ میں ہم میں سے وہ کون تھا جس کے پاس دو کپڑے تھے ، ہمارے پاس تو صرف ایک ایک کپڑا ہوتا تھا اسی میں ہم نماز پڑھتے تھے اور اسی کو دوسری ضرورتوں کے لیے استعمال کرتے تھے۔ اس بارے میں علماء کا اتفاق ہے کہ دو کپڑوں میں نماز پڑھنا افضل ہے واجب نہیں ہے کیونکہ اس میں تنگی ہے نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے ایک کپڑے میں نماز کبھی تو اس لیے پڑھی کہ ان کے پاس کپڑا ہی صرف ایک تھا اور کبھی بیان جواز کی خاطر ایک ہی کپڑے میں نماز پڑھ لی۔ الحاصل اگر کوئی آدمی ایک ہی کپڑے میں نماز اس لیے پڑھتا ہے کہ اس کے پاس دوسرا کپڑا موجود نہیں ہے یا بیان جواز کی خاطر پڑھتا ہے تو جائز ہے۔ اور اگر کوئی آدمی سستی و کاہلی اور بہ نیت حقارت پڑھے گا تو یہ مناسب نہیں ہوگا۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ کسی کو صحابہ کے ترک سنت پر لعن و طعن کرنا نہیں چاہئے اور ان کے بارے میں نیک گمان ہی رکھنا چاہئے۔ یعنی اگر کسی صحابی سے کوئی ایسا فعل صادر نظر آئے جو بظاہر خلاف سنت معلوم ہوتا ہے تو اس بارے میں نیک گمان ہی رکھنا چاہئے کہ یہ بیان جواز کے لیے ہے یا پھر اس میں کوئی عذر ہوگا۔
-
وَعَنْ اُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ قَالَ الصَّلَاۃُ فِی الثَّوْبِ الْوَاحِدِ سُنَّۃٌ کُنَّا نَفْعَلُہ، مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم وَلَا یُعَابُ عَلَیْنَا فَقَالَ ابْنُ مَسْعُوْدٍ اِنَّمَا کَانَ ذٰلِکَ اِذْ کَانَ فِی الثِّیَابِ قِلَّۃٌ فَاَمَّا اِذَا وَسَعَ اﷲُ فَالصَّلَاۃُ فِی الثَّوْبَیْنِ اَزْکٰی۔ (رواہ احمد بن حنبل)-
" اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک کپڑے میں نماز پڑھنا سنت ہے کیونکہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہم اسی طرح نماز پڑھتے تھے اور ہمیں کوئی برا نہیں کہتا تھا۔ اس پر حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ (یعنی ایک کپڑے میں نماز پڑھنا) اسی وقت تھا جب کہ کپڑوں کی قلت تھی اب جب کہ اللہ تعالیٰ نے کپڑوں کے بارے میں وسعت بخش دی ہے تو دو کپڑوں میں ہی نماز پڑھنا بہتر ہے۔ " (مسند احمد بن حنبل)
-