سانپ کو مار ڈالنے کا حکم

وعن ابن عمر أنه سمع النبي صلى الله عليه و سلم يقول : " اقتلوا الحيات واقتلوا ذا الطفيتين والأبتر فإنهما يطمسان البصر ويستسقطان الحبل قال عبد الله : فبينا أنا أطارد حية أقتلها ناداني أبو لبابة : لا تقتلها فقلت : إن رسول الله صلى الله عليه و سلم أمر بقتل الحيات . فقال : إنه نهى بعد ذلك عن ذوات البيوت وهن العوامر-
" اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ " ( عموما تمام ) سانپوں کو مار ڈالو ، اور ( خصوصا ) اس سانپ کو کہ جس کی پشت پر دو سیاہ دھاریاں ہوں اور اس سانپ کو جس کو بتر کہتے ہیں مار ڈالو کیونکہ یہ دونوں قسم کے سانپ بینائی کو زائل کر دیتے ہیں ( یعنی محض ان کو دیکھنے سے آدمی انتدھا ہو جاتا ہے اور اس کا سبب اس زہر کی خاصیت ہے جو ان سانپوں میں ہوتا ہے اسی طرح (یہ ہدونوں سانپ ) حمل کو گرا دیتے ہیں ( یعنی اگر حاملہ عورت ان کو دیکھے تو اس زہر کی خاصیت کے سبب سے یا خوف ودہشت کی وجہ سے اس کا حمل گر جاتا ہے ۔ " حضرت عبداللہ ابن عمر کہتے ہیں کہ ( ایک دن ) جب کہ میں ایک سانپ پر حملہ کر کے اس کو مار ڈالنے کے درپے تھا کہ ( ایک صحابی ) حضرت ابولبابہ انصاری نے مجھ کو آواز دے کر کہا کہ اس کو مت مارو ، میں نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام سانپوں کو مارڈالنے کا حکم دیا ہے ۔ حضرت ابولبابہ نے کہا کہ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ( عام حکم) کے بعد گھر میں رہنے والے سانپوں کو مار ڈالنے سے منع فرمادیا تھا کیونکہ وہ گھر کو آباد کرنے والے ہیں ۔ " ( بخاری ومسلم ) تشریح : " وہ گھر کو آباد کرنے والے ہیں ۔ " اصل میں عمر اور عمر کے معنی ہیں آباد کرنا ، مدت دراز تک زندہ رہنا ، چنانچہ ان سانپوں کو " عوامر " اسی لئے کہا گیا ہے کہ ان کی عمر بہت زیادہ ہوتی ہے اور اس وجہ سے وہ ہمیشہ گھر میں رہتے ہیں ، ہمارے یہاں اس قسم کے سانپ کو " بھومیا " کہا جاتا ہے ۔ اور تورپشتی نے کہا ہے کہ اصل میں " عوامر " کا اطلاق جنات پر ہوتا ہے ، اس اعتبار سے وہ " گھر کو آباد کرنے والے ہیں ۔ " سے مراد یہ ہوگی کہ گھروں میں اکثر وبیشتر جو سانپ نظر آتے ہیں وہ حقیقت میں جنات ہوتے ہیں جو سانپ کی صورت اختیار کئے ہوئے ہیں، لہٰذا گھروں میں رہنے والے سانپوں کو قتل کرنے میں احتیاط کرنی چاہئے کہ مبادا جس سانپ کو مار ڈلا گیا ہے وہ حقیقت کے اعتبار سے گھر میں رہنے والا جن رہا ہو اور اس کے قتل سے گھر والوں کو کوئی نقصان وضرر پہنچ جائے ۔ طبرانی نے ابن عباس سے بطریق مرفوع یہ روایت نقل کی ہے کہ : اقتلو الحیۃ والعقرب وان کنتم فی الصلوۃ ۔ " سانپ اور بچھو کو مار ڈالو اگر چھ تم نماز کی حالت میں کیوں نہ ہو ۔ " اسی طرح ابوداؤد ونسائی نے حضرت ابن مسعود سے اور طبرانی نے جریر سے اور انہوں نے حضرت عثمان بن ابوالعاص سے بطریق مرفوع یہ روایت نقل کی ہے کہ : اقتلو الحیات کلھن فمن خاف ثارھن فلیس منی ۔ ہر قسم کے سانپوں کو مار ڈالو ، جو شخص ان ( سا نپوں کے بدلے انتقام سے ڈرا اسکی وجہ سے ان کو نہیں مارا ) تو وہ مجھ سے نہیں ہے ۔ " لیکن یہ روایتیں کہ جن سے مطلق سانپوں کو مار ڈالنے کا حکم ثابت ہوتا ہے ، اصل میں یہ گھروں میں رہنے والے سانپوں کے علاوہ دوسرے سانپوں پر محمول ہیں جیسا کہ حضرت ابن عمر کی مذکورہ بالا روایت یا آگے آنے والی دوسری روایتوں سے واضح ہوتا ہے ۔
-
وعن أبي السائب قال : دخلنا على أبي سعيد الخدري فبينما نحن جلوس إذ سمعنا تحت سريره فنظرنا فإذا فيه حية فوثبت لأقتلها وأبو سعيد يصلي فأشار إلي أن أجلس فجلست فلما انصرف أشار إلى بيت في الدار فقال : أترى هذا البيت ؟ فقلت : نعم فقال : كان فيه فتى منا حديث عهد بعرس قال : فخرجنا مع رسول الله صلى الله عليه و سلم إلى الخندق فكان ذلك الفتى يستأذن رسول الله صلى الله عليه و سلم بأنصاف النهار فيرجع إلى أهله فاستأذنه يوما فقال له رسول الله صلى الله عليه و سلم : " خذ عليك سلاحك فإني أخشى عليك قريظة " . فأخذ الرجل سلاحه ثم رجع فإذا امرأته بين البابين قائمة فأهوى إليها بالرمح ليطعنها به وأصابته غيرة فقالت له : اكفف عليك رمحك وادخل البيت حتى تنظر ما الذي أخرجني فدخل فإذا بحية عظيمة منطوية على الفراش فأهوى إليها بالرمح فانتظمها به ثم خرج فركزه في الدار فاضطربت عليه فما يدري أيهما كان أسرع موتا : الحية أم الفتى ؟ قال : فجئنا رسول الله صلى الله عليه و سلم وذكرنا ذلك له وقلنا : ادع الله يحييه لنا فقال : " استغفروا لصاحبكم " ثم قال : " إن لهذه البيوت عوامر فإذا رأيتم منها شيئا فحرجوا عليها ثلاثا فإن ذهب وإلا فاقتلوه فإنه كافر " . وقال لهم : " اذهبوا فادفنوا صاحبكم " وفي رواية قال : " إن بالمدينة جنا قد أسلموا فإذا رأيتم منهم شيئا فآذنوه ثلاثة أيام فإن بدا لكم بعد ذلك فاقتلوه فإنما هو شيطان " . رواه مسلم-
" اور حضرت سائب ( جو حضرت ہشام ابن زہرہ کے ازاد کردہ غلام تھے اور تابعی ہیں ) کہتے ہیں کہ ( ایک دن ) ہم حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کے پاس ان کے گھر گئے ، چنانچہ جب کہ ہم وہاں بیٹھے ہوئے تھے اچانک ہم نے ان ( ابوسعید ) کے تخت کے نیچے ایک سرسراہٹ سنی ہم نے دیکھا تو وہاں ایک سانپ تھا ، میں اس کو مارنے کے لئے جھپٹا، مگر حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ نماز پڑھ چکے تو انہوں نے مکان کے ایک کمرے کی طرف اشارہ کر کے پوچھا کہ " کیا تم نے اس کمرے کو دیکھا ہے ؟ " میں نے کہا کہ " ہاں ! " پھر حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ " اس کمرے میں ہمارے خاندان کا ایک نوجوان رہا کرتا تھا جس کی نئی نئی شادی ہوئی تھی ۔ " حضرت ابوسعید نے کہا کہ " ہم سب لوگ ( یعنی وہ نوجوان بھی ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ غزوہ خندق میں گئے ، ( جس کا محاذ مدینہ کے مضافات میں قائم کیا گیا تھا ) ( روزانہ ) دوپہر کے وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ( گھر جانے کی ) اجازت مانگ لیا کرتا تھا ( کیونکہ دلہن کی محبت اس کو اس پر مجبور کرتی تھی ) چنانچہ ( اجازت ملنے پر ) وہ اپنے اہل خانہ کے پاس چلا جاتا ( اور رات گھر میں گزار کر صبح کے وقت پھر مجاہدین میں شامل ہو جاتا ) ایک دن حسب معمول ، اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ( اس کو اجازت دیتے ہوئے ) فرمایا کہ اپنے ہتھیار اپنے ساتھ رکھو ، کیونکہ میں ڈرتا ہوں کہ کہیں بنو قریظہ تم پر حملہ نہ کر دیں ( بنو قریظہ مدینہ میں یہودیوں کا ایک قبیلہ تھا جو اس موقع پر قریش مکہ کا حلیف بن کر مسلمانوں کے خلاف جنگ میں شریک تھا اس نوجوان نے ہتھیار لے لئے اور ( اپنے گھر کو ) روانہ ہو گیا) جب وہ اپنے گھر کے سامنے پہنچا تو ) کیا دیکھتا ہے کہ اس کی بیوی ( گھر کے ) دونوں دروازوں ( یعنی اندر اور باہر کے دروازے ) کے درمیان کھڑی ہے ، نوجوان نے عورت کو مار ڈالنے کے لئے اس کی طرف نیزہ اٹھایا کیونکہ ( یہ دیکھ کر کہ اس کی بیوی باہر کھڑی ہے ) اس کو بڑی غیرت آئی لیکن عورت نے ( جبھی ) اس سے کہا کہ " اپنے نیزے کو اپنے پاس روک لو اور ذرا گھر میں جا کر دیکھو کہ کیا چیز میرے باہر نکلنے کا سبب ہوئی ہے ۔ " ( یہ سن کر ) وہ نوجوان گھر میں داخل ہوا ، وہاں یکبارگی اس کی نظر ایک بڑے سانپ پر پڑی جو بستر پر کنڈلی مارے پڑا تھا ۔ نوجوان نیزہ لے کر سانپ پر جھپٹا اور اس کو نیزہ میں پرو لیا پھر اندر سے نکل کر باہر آیا اور نیزے کو گھر کے صحن میں گاڑ دیا ، سانپ نے تڑپ کر نوجوان پر حملہ کیا ، پھر یہ معلوم نہ ہو سکا کہ دونوں میں سے پہلے کون مرا ، سانپ یا نوجوان ؟ ( یعنی وہ دونوں اس طرح ساتھ مرے کہ یہ بھی پتہ نہ چل سکا کہ پہلے کس کی موت واقع ہوئی ) ۔ حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس واقعہ کے بعد ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ ماجرا بیان کر کے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ اس نوجوان کو ہمارے لئے زندہ کر دے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے ساتھی اور رفیق کے لئے مغفرت طلب کرو ۔ " اور پھر فرمایا کہ ۔ " ( مدینہ کے ان گھروں میں " عوامر " یعنی جنات رہتے ہیں ( جن میں مؤمن بھی ہیں اور کافر بھی ) لہٰذا جب تم ان میں سے کسی کو ( سانپ کی صورت میں ) دیکھو تو تین بار یا تین دن اس پر تنگی اختیار کرو پھر اگر وہ چلا جائے تو فبہا ورنہ اس کو مار ڈالو کیونکہ ( اس صورت میں یہی سمجھا جائے گا کہ ) وہ ( جنات میں کا ) کافر ہے ۔ " پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے فرمایا کہ ۔ " جاؤ اپنے ساتھی کی تکفین و تدفین کرو ۔ " ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ " مدینہ میں ( کچھ ) جن ہیں ( اور ان میں وہ بھی ہیں ) جو مسلمان ہو گئے ہیں ان میں سے جب تم کسی کو ( سانپ کی صورت میں ) دیکھو تو تین دن اس کو خببردار کرو ، پھر تین دن کے بعد بھی اگر وہ دکھائی دے تو اس کو مار ڈالو کہ وہ شیطان ہے ۔ " ( مسلم ) تشریح " آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے ۔ " علماء نے لکھا ہے کہ صحابہ کی یہ روش نہیں تھی کہ وہ اس طرح کی کوئی استدعا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کریں ۔ اس موقع پر ان لوگوں کا خیال یہ تھا کہ نوجوان حقیقت میں مرا نہیں ہے بلکہ زہر کے اثر سے بیہوش ہو گیا ہے ۔ اس خیال سے انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس دعا کی استدعا کی تھی۔ " مغفرت طلب کرو ۔ " اس ارشاد سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب یہ تھا کہ اس کو زندہ کرنے کی دعا کی درخواست کیوں کرتے ہو کیونکہ وہ تو اپنی راہ پر چل کر موت کی گود میں پہنچ گیا ہے جس کے حق میں زندگی کی دعا قطعا فائدہ مند نہیں ہے ، اب تو اس کے حق میں سب سے مفید چیز یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اس کی مغفرت اور بخشش کی درخواست کرو ۔ " اس پر تنگی اختیار کرو یا اس کو خبردار کرو ۔ " کا مطلب یہ ہے کہ جب سانپ نظر آئے تو اس سے کہو کہ تو تنگی اور گھیرے میں ہے اب نہ نکلنا اگر پھر نکلے گا تو ہم تجھ پر حملہ کریں گے اور تجھ کو مار ڈالیں گے ، آگے تو جان ۔ ایک روایت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ منقول ہے کہ سانپ کو دیکھ کر یہ کہا جائے انشدکم بالعہد الذی اخذ علیکم سلیمان بن داؤد علیماالسلام لا تاذونا ولا تظہروا لنا ۔ " میں تجھ کو اس عہد کی قسم دیتا ہوں جو حضرت سلیمان بن داؤد علیہما السلام نے تجھ سے لیا تھا کہ ہم کو ایذاء نہ دے اور ہمارے سامنے مت آ ۔ " " وہ شیطان ہے ۔ " یعنی خبردار کر دینے کے بعد بھی وہ غائب ہوا تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ مسلمان جن نہیں ہے بلکہ یا تو کافر جن ہے یہ حقیقت میں سانپ ہے اور یا ابلیس کی ذریات میں سے ہے اس صورت میں اس کو فورا مار ڈالنا چاہئے ۔ اس کو " شیطان " اس اعتبار سے کہا گیا ہے کہ آگاہی کے بعد بھی نظروں سے غائب نہ ہو کر اس نے اپنے آپ کو سرکش ثابت کیا ہے اور عام بات کہ جو بھی سرکش ہوتا ہے خواہ وہ جنات میں کا ہو یا آدمیوں میں کا اور یا جانوروں میں کا اس کو شیطان کہا جاتا ہے ۔
-