TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
جن چیزوں میں زکوۃ واجب ہوتی ہے ان کا بیان
زیور کی زکوۃ
وعن زينب امرأة عبد الله قالت : خطبنا رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال : " يا معشر النساء تصدقن ولو من حليكن فإنكن أكثر أهل جهنم يوم القيامة " . رواه الترمذي-
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ حضرت زینب کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمارے سامنے خطبہ ارشاد کرتے ہوئے فرمایا کہ اے عورتوں کی جماعت، تم اپنے مال کی زکوۃ ادا کرو اگرچہ وہ زیور ہی کیوں نہ ہو اس لیے کہ قیامت کے دن تم میں اکثریت دوزخیوں کی ہو گی۔ (ترمذی) تشریح اکثریت دوزخیوں کی ہو گی کا مطلب یہ ہے کہ عورتوں کی اکثریت چونکہ دنیا اور دنیا کی چیزوں کی محبت میں گرفتار ہوتی ہے ہے جس کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ زکوۃ کی ادائیگی نہیں ہوتی بلکہ خدا کی راہ میں اپنا مال خرچ کرنے کا ان میں جذبہ بھی نہیں ہوتا اس لیے عورتوں کی اکثریت کو دوزخی فرمایا گیا ہے چنانچہ عورتوں کو آگاہ فرمایا گیا کہ اگر تم دوزخ کی ہولنا کیوں سے بچنا چاہتی ہو تو دنیا کی محبت اور دنیاوی عیش و عشرت کی طمع و حرص سے باز آؤ۔ خدا نے تمہیں جس قدر مال دیا ہے اس پر قناعت کرو اور اس میں سے زکوۃ و صدقہ نکالتی رہو تاکہ قیامت کے دن خدا کی رحمت تمہارے ساتھ ہو اور تم دوزخ میں جانے سے بچ جاؤ۔ عورتوں کے زیور کی زکوۃ کے بارے میں ائمہ کا اختلاف ہے چنانچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا تو مسلک یہ ہے کہ مطلقا زیور میں زکوۃ واجب ہے جب کہ وہ حد نصاب کو پہنچتا ہو حضرت امام شافعی کا پہلا قول بھی یہی ہے حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد فرماتے ہیں کہ عورتوں کے ان زیورات میں زکوۃ واجب نہیں ہے جن کا استعمال مباح ہے لہٰذا جن زیورات کا استعمال حرام ہے ان حضرات کے نزدیک بھی ان میں زکوۃ واجب ہوتی ہے، حضرت امام شافعی کا آخری قول بھی یہی ہے حضرت امام اعظم کے مسلک کی دلیل بھی یہی حدیث ہے جس سے مطلقاً زیورات میں زکوۃ کا وجوب ثابت ہو رہا ہے۔ کون سے زیورات مباح ہیں اور کون سے زیورات غیر مباح و حرام ہیں؟ اس کی تفصیل جاننے کے لیے " محرر" اور شافعی مسلک کی دوسری کتابیں دیکھی جا سکتی ہیں۔
-
وعن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده : أن امرأتين أتتا رسول الله صلى الله عليه و سلم وفي أيديهما سواران من ذهب فقال لهما : " تؤديان زكاته ؟ " قالتا : لا . فقال لهما رسول الله صلى الله عليه و سلم : " أتحبان أن يسوركما الله بسوارين من نار ؟ " قالتا : لا . قال : " فأديا زكاته " رواه الترمذي وقال : هذا حديث قد رواه المثنى بن الصباح عن عمرو بن شعيب نحو هذا والمثنى بن الصباح وابن لهيعة يضعفان في الحديث ولا يصح في هذا الباب عن النبي صلى الله عليه و سلم شيء-
حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ اپنے والد مکرم سے اور وہ اپنے جد محترم سے نقل کرتے ہیں کہ ایک دن دو عورتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں ان دونوں نے اپنے ہاتھوں میں سونے کے کڑے پہنے ہوئے تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کڑوں کو دیکھ کر فرمایا کہ کیا تم ان کی زکوۃ ادا کرتی ہو! ان دونوں نے کہا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم یہ بات پسند کرتی ہو کہ کل قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تمہیں آگ کے دو کڑے پہنائے۔ انہوں نے عرض کیا کہ نہیں! تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تو پھر اس سونے کی زکوۃ ادا کیا کرو۔ ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اس حدیث کو اسی طرح مثنی بن صباح نے عمرو بن شعیب سے نقل کیا ہے اور مثنی بن صباح نیز ابن لہیعہ جو اس حدیث کے ایک دوسرے راوی ہیں دونوں روایت حدیث کے بارے میں ضعیف شمار کیے جاتے ہیں اور اس بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کوئی صحیح حدیث منقول نہیں ہے۔ تشریح یہ حدیث بھی بڑی وضاحت کے ساتھ اس بات کی دلیل ہے کہ زیورات میں زکوۃ واجب ہے امام ترمذی کا یہ کہنا ہے کہ اس بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کوئی صحیح حدیث منقول نہیں ہے سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے کیونکہ احادیث کی دوسری کتابوں میں اس مسئلہ سے متعلق صحیح حدیثیں منقول ہیں جنہیں ملا علی قاری نے بھی مرقات میں نقل کیا ہے۔
-
وعن أم سلمة قالت : كنت ألبس أوضاحا من ذهب فقلت : يا رسول الله أكنز هو ؟ فقال : " ما بلغ أن يؤدى زكاته فزكي فليس بكنز " . رواه مالك وأبو داود-
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا راوی ہیں کہ میں سونے کا وضح جو ایک زیور کا نام ہے پہنا کرتی تھی ایک دن میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! کیا اس کا شمار بھی جمع کرنے میں ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو چیز اتنی مقدار میں ہو کہ اس کی زکوۃ ادا کی جائے یعنی حد نصاب کو پہنچتی ہو تو زکوۃ ادا کرنے کے بعد اس کا شمار جمع کرنے میں نہیں ہوتا۔ (مال، ابوداو،) تشریح حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے سوال کا مطلب یہ تھا کہ قرآن کریم نے مال جمع کرنے کے بارے میں یہ جو وعید بیان فرمائی ہے کہ ا یت (والذین یکنزون الذھب والفضۃ الآیہ (جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اس میں سے خدا کی راہ میں کچھ خرچ نہیں کرتے تو انہیں دردناک عذاب سے آگاہ کر دیجئے)۔ تو کیا سونے کا میرا یہ زیور بھی اس وعید میں داخل ہے اس کا جواب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ دیا کہ جو مال بقدر نصاب ہو اور اس کی زکوۃ ادا کی جائے تو وہ مال اس وعید میں داخل نہیں ہے کیونکہ قرآن کریم تو دردناک عذاب کی خبر اس مال کے مالک کے بارے میں دے رہا ہے جسے بغیر زکوۃ دیئے جمع کیا جائے۔
-