TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں کے مناقب کا بیان
زید بن محمد کہنے کی ممانعت
وعنه قال : إن زيد بن حارثة مولى رسول الله صلى الله عليه و سلم ما كنا ندعوه إلا زيد بن محمد حتى نزل القرآن [ ادعوهم لآبائهم ] متفق عليه وذكر حديث البراء قال لعلي : " أنت مني " في " باب بلوغ الصغير وحضانته "-
اور یہ بھی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا ہم لوگ اس (زید ) کو صرف زید بن محمد ہی کہہ کر بلایا کرتے تھے یہاں تک کہ قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی تم ان کو ان کے باپوں کے ناموں سے پکارا اور بلایا کرو۔" (بخاری ومسلم ) اور حضرت براء رضی اللہ عنہ کی حدیث جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فرمایا انت منی (تم مجھ سے ہو) بلوغ صغیر اور (اس کی حضانت کے باب میں گزر چکی ہے ) تشریح مکمل آیت اس طرح ہے (مَا جَعَلَ اللّٰهُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَيْنِ فِيْ جَوْفِه وَمَا جَعَلَ اَزْوَاجَكُمُ اڿ تُظٰهِرُوْنَ مِنْهُنَّ اُمَّهٰتِكُمْ وَمَا جَعَلَ اَدْعِيَا ءَكُمْ اَبْنَا ءَكُمْ ذٰلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِاَفْوَاهِكُمْ وَاللّٰهُ يَ قُوْلُ الْحَ قَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيْلَ Ć اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَا ى ِهِمْ هُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ فَاِنْ لَّمْ تَعْلَمُوْ ا اٰبَا ءَهُمْ فَاِخْوَانُكُمْ فِي الدِّيْنِ وَمَوَالِيْكُمْ ) 33۔ الاحزاب : 4)۔ اور اللہ نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارے بیٹے نہیں قرار دیا یہ تو تمہارے اپنے ہی منہ کی بات ہے اور اللہ تعالیٰ درست بات کہتا ہے اور صحیح راہ دکھاتا ہے تم ان کو ان کے باپوں کے نام کی نسبت سے پکارا و بلایا کرو اس لئے کہ یہ بات اللہ کے نزدیک زیادہ عدل و انصاف کی مظہر ہے اور اگر ان کے باپ تمہیں معلوم نہ ہوں تو پھر وہ تمہارے دینی بھائی اور تمہارے دوست ہیں ۔ اس آیت کے نزول کے بعد انہیں زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے ۔ اس روائیداد سے بھی بخوبی واضح ہوتا ہے کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو کسی قدر رتبہ محبت و قرب حاصل تھا ۔
-
عن جابر قال : رأيت رسول الله صلى الله عليه و سلم في حجته يوم عرفة وهو على ناقته القصواء يخطب فسمعته يقول : " يا أيها الناس إني تركت فيكم ما إن أخذتم به لن تضلوا : كتاب الله وعترتي أهل بيتي " . رواه الترمذي-
" حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ انہوں نے کہا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے حج کے موقع پر عرفہ کے دن اپنی قصواء نامی اونٹنی پر خطبہ دیتے سنا کہ فرمایا : لوگو ! میں تمہارے درمیان وہ چیز چھوڑے جا رہا ہوں کہ اگر تم نے اس کو مضبوطی سے پکڑے رکھا تو تم کبھی گمراہ نہ ہو گے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی کتاب اور میری اولاد ، میرے اہل بیت ۔" (ترمذی ) تشریح قصواء اس اونٹنی کو کہا جاتا ہے جس کے کان کا کوئی کونہ کٹا ہوا ہو ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کا کان پیدائشی طور پر ایسا ہی تھا اور کٹا ہوا نہ تھا یہ وجہ تسمیہ بھی ہو سکتی ہے کہ قصواء بمعنی بعید ہو ۔چنانچہ منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ اونٹنی نہایت تیز رفتار تھی اور دور دور تک تیز رفتار سے چلتی جاتی تھی ۔ اخذتم بہ تم مضبوطی سے پکڑے رہو ۔ پکڑنے سے مراد اطاعت اور عمل و پیروی ہے ابن مالک نے کہا کہ کتاب کو پکڑنے کا مطلب یہ ہے کہ اس پر عمل کیا جائے اور عترت و اولاد کو پکڑنے کا مفہوم یہ ہے کہ ان سے محبت کی جائے ان کی سیرت اختیار کی جائے اور ان کو قولا فعلاً کسی طرح بھی ایذاء نہ دی جائے ۔ عترت سے آپ کی اولاد مراد ہے اور اہل بیت سے مراد آپ کے قرابت دار اور جد قریب کی اولاد بھی ہے اور آپ کی ازواج مطہرات بھی رضو ان اللہ علیہم ۔ آج عالم اسلام میں جس قدر پریشانیاں موجود ہیں ان کا واحد حل صرف اور صرف یہ ہے کہ اہل اسلام حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کو بالکل بھول چکے ہیں ۔
-