رکوع و سجود کی تسبیحات

وَعَنْ عُقَبَۃَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ لَمَا نَزَلَتْ فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّکَ الْعَظِیْمِ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِجْعَلُوْھَا فِی رُکُوعِکُمْ فَلَمَّا نَزَلَتْ سَبِّحِ اسْمِ رَبِّکَ الْاَعْلٰی قَالَ اجْعَلُوْھَا فِی سُجُوْدِ کُمْ۔ (رواہ ابوداؤد، ابن ماجۃ و الدارمی)-
" اور حضرت عقبہ ابن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت " فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيْمِ" 56۔ الواقعہ : 74) نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ اس کو (سبحان ربی العظیم) کی صورت میں اپنے رکوع میں شامل کر لو اور جب یہ آیت "سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى" 87۔ الاعلی : 1) نازل ہوئی تو فرمایا کہ اس کو (سبحان ربی الاعلی کی صورت میں) اپنے سجدوں میں داخل کر و۔" (سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ، دارمی)
-
وَعَنْ عَوْنِ بْنِ عَبْدِاﷲِ عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا رَکَعَ اَحَدُکُمْ فَقَالَ فِی رُکُوْعُہ، سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمِ ثَلَاثَ مَرَّاتِ فَقَدْ تَمَّ رُکُوْعُہ، وَذٰلِکَ اَدْنَاہُ وَاِذَا سَجَدَ فَقَالَ فِی سُجُوْدِہٖ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی ثَلَاثَ مَرَّاتَ فَقَدْ ثُمَّ سُجُوْدُہُ وَذٰلِکَ اَدْنَاہُ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَ اَبُوْدَاؤُدَ وَ ابْنُ مَاجَۃَ وَقَالَ التِّرْمِذِیُّ لَیْسَ اِسْنَادُہُ بِمُتَّصِلٍ لِاَنَّ عَوْنًالَمْ یَلْقَ ابْنَ مَسْعُوْدٍ۔-
" اور حضرت عون ابن عبداللہ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " جب تم میں سے کوئی رکوع کرے تو اس کو رکوع میں سبحان ربی العظیم تین مرتبہ کہنا چاہئے تب اس کا رکوع پورا ہوگا اور یہ ادنی درجہ ہے اور جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تو اسے سجدے میں سبحان ربی الاعلی تین مرتبہ کہنا چاہئے تب اس کا سجدہ پورا ہوگا اور یہ ادنیٰ درجہ ہے۔ (جامع ترمذی ، سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ) تشریح رکوع میں ان تسبحیات کو تین مرتبہ کہنا ادنی درجہ کمال سنت کا ہے ورنہ تو اصل سنت ایک مرتبہ میں ادا ہو جاتی ہے اور کمال سنت کا اوسط درجہ پانچ مرتبہ ہے اور اعلیٰ درجہ سات مرتبہ کہنا ہے اور انتہائے کمال کی کوئی حد نہیں ہے گو بعض حضرات نے دس مرتبہ کہا ہے اور بعض حضرات نے تو تقریباً قیام کی مقدار تک کہا ہے لیکن بہر صورت میں امام کو مقتدیوں کی رعایت لازم ہوگی۔ فنی طور پر اتنی بات بھی سمجھ لیجئے کہ حدیث منقطع کو مستدل بنانا غلط نہیں ہے کیونکہ متفقہ طور پر سب کے نزدیک فضائل اعمال کے سلسلہ میں حدیث منقطع پر بھی عمل کرنا جائز ہے۔
-
وَعَنْ حُذَیْفَۃَ اَنَّہُ صَلّٰے مَعَ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم وَکَانَ یَقُوْلُ فِی رُکُوْعِہٖ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمِ وَفِی سُجُوْدِہٖ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلَی وَمَا اَتٰی عَلٰی اٰیَۃِ رَحْمَۃٍ اِلَّا وَقَفَ وَسَئَالَ وَمَا اَتٰی عَلٰے اٰیَۃِ عَذَابٍ اِلَّا وَقَفَ وَتَعَوَّذَ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَاَبُوْدَاؤدَ وَ الدَّارِمِیُّ وَرَوَی النِّسَائِیُّ وَابْنُ مَاجَۃَ اِلٰی قَوْلِہِ الْاَعْلٰے وَقَالَ التِّرْمِذِیُّ ھٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ صَحِیْحٌ۔-
" ' اور حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ میں نے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نماز پڑھی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع میں سبحان ربی العظیم اور سجدے میں سبحان ربی الاعلی پڑھتے تھے اور جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم (قرات میں) کسی آیت رحمت پر پہنچتے تو وہاں رک جاتے اور طلب رحمت کی دعا کرتے اور جب کسی آیت عذاب پر پہنچتے تو وہاں رک کر عذاب سے پناہ مانگتے۔ ( ترمذی، سنن ابوداؤد، دارمی، سنن نسائی اور ابن ماجہ نے اس روایت کو سبحان ربی الاعلی تک نقل کیا ہے اور جامع ترمذی نے کہا ہے یہ حدیث حسن صحیح ہے۔" تشریح علماء حنفیہ اور علماء مالکیہ اس حدیث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نفل نماز پر محمول کرتے ہیں کیونکہ ان حضرات کے نزدیک فرض نماز میں درمیان قرات دعا مانگنی اور پناہ مانگنی جائز نہیں ہے لیکن اس حدیث کو جواز پر حمل کرنا بھی ممکن ہے کیونکہ ہو سکتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بیان جواز کی خاطر فرض نماز میں بھی ایسا کیا ہو۔ شیخ جزری رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے لکھا ہے کہ اس حدیث کو مسلم نے بھی نقل کیا ہے لہٰذا مؤلف مشکوٰۃ کو یہ حدیث دوسری فصل کی بجائے پہلی فصل میں نقل کرنی چاہئے تھی ۔
-
وَعَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ قُمْتُ مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم فَلَمَّا رَکَعَ مَکَثَ قَدْرَ سُوْرَۃِ الْبَقَرَۃِ وَیَقُوْلُ فِی رُکُوْعِہٖ سُبْحَانَ ذِی الْجَبَرُوْتِ وَالْمَلَکُوْتِ وَالْکِبْرِیَاءِ وَ الْعَظْمَۃِ۔ (رواہ النسائی )-
" اور حضرت عوف ابن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نماز پڑھی چنانچہ جب آپ رکوع میں گئے تو سورت بقرہ " پڑھنے کے) بقدر ٹھہرے اور (رکوع میں) یہ کہتے جاتے تھے۔" قہر و باد شاہت اور بڑائی و بزرگی کا ملک (خدا) پاک ہے۔" (سنن نسائی) تشریح یہ فرض نماز کا ذکر نہیں ہے بلکہ بعض حضرات کے قول کے مطابق یہ تہجد کی نماز تھی اور بعض حضرات فرماتے ہیں کہ یہ نماز کسوف تھی۔
-
وَعَنِ ابْنِ جُبَیْرٍ قَالَ سَمِعْتُ اَنَسَ ابْنَ مَالِکٍ یَقُوْلُ مَا صَلَّیْتُ وَرَاءَ اَحَدٍ بَعْدَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اَشْبَہُ صَلَاۃً بِصَلَاۃِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم مِنْ ھٰذَا الفَتَی یَعْنِی عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیْزِ قَالَ قَالَ فَحَزَرْنَا رُکُوْعَہُ عَشْرَ تَسْبِیْحَاتٍ وَ سُجُوْدَہُ عَشْرَ تَسْبِیْحَاتٍ۔(رواہ ابوداؤد و النسائی )-
" اور حضرت ابن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت انس ابن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ " میں نے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اس نوجوان یعنی حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے علاوہ کسی کے پیچھے ایسی نماز نہیں پڑھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے مشابہ ہو۔" راوی فرماتے ہیں کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا " ہم نے ان کے (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے، رکوع کا دس تسبیحات ( کے بقدر ) اور سجدے کا دس تسبیحات (کے بقدر) اندازہ کیا۔" (ابوداؤد، سنن نسائی ) تشریح مطلب یہ ہے کہ جتنی دیر میں وہ رکوع یا سجدہ کرتے تھے ہم دس تسبیحیں پڑھ لیا کرتے تھے لہٰذا وہ بھی دس یا دس سے کم و بیش تسبیحات پڑھتے ہوں گے۔
-
وَعَنْ شَقِےْقٍ قَالَ اِنَّ حُذَےْفَۃَ رَاٰی رَجُلًا لَّاےُتِمُّ رُکُوْعَہُ وَلَا سُجُوْدَہُ فَلَمَّا قَضٰی صَلٰوتَہُ دَعَاہُ فَقَالَ لَہُ حُذَےْفَۃُ مَا صَلَّےْتَ قَالَ وَاَحْسِبُہُ قَالَ وَلَوْ مُتَّ مُتَّ عَلٰی غَےْرِ الْفِطْرَۃِ الَّتِیْ فَطَرَ اللّٰہُ مُحَمَّدًا صلی اللہ علیہ وسلم۔(صحیح البخاری)-
" اور حضرت شفیق رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ (نماز میں ) اپنے رکوع وسجود کو پوری طرح ادا نہیں کر رہا تھا چنانچہ جب وہ نماز پڑھ چکا تو حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے بلایا اور کہا کہ تم نے پوری (طرح) نماز نہیں پڑھی۔" حضرت شفیق رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ میرا گمان یہ ہے کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس آدمی سے یہ بھی کہا کہ اگر تم (ایسی نماز سے بغیر توبہ کئے ہوئے ) مر جاؤ تو تم غیر فطرت پر (یعنی اس طریقہ اسلام کے خلاف) مرو گے جس پر اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کیا ۔" (صحیح البخاری )
-
وَعَنْ اَبِی قَتَادَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَسْوَأٌ النَّاسِ سَرِقَۃً اَلَّذِی یَسْرِقُ مِنْ صَلَاتِہٖ قَالُوْا یَا رَسُوْلَ اﷲِ وَکَیْفَ یَسْرِقُ مِنْ صَلَاتِہٖ قَالَ لَایُتِمُّ رُکُوْعَھَا وَلَا سُجُوْدَھَا۔ (رواہ احمد بن حنبل)-
" اور حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چوری کرنے کے اعتبار سے سب سے بڑا چور وہ ہے جو اپنی نماز کی چوری کرے۔" صحابہ کرام نے عرض کیا " یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! نماز کی چوری کیسے ہوتی ہے" ؟ فرمایا " رکوع و سجود کا پورا نہ کرنا۔" (مسند احمد بن حنبل) تشریح مال کی چوری کرنے والے سے نماز کی چوری کرنے والا آدمی اس لیے برا ہے کہ مال چرانے والا کم سے کم چوری کے مال سے دنیا میں فائدہ تو اٹھا لیتا ہے اور پھر یہ کہ مالک سے معاف کرنے کے بعد یا سزا کے طور پر (اسلامی قانون کے مطابق) اپنے ہاتھ کٹوا کر وہ مواخذہ آخرت سے بچ جاتا ہے لیکن اس کے برخلاف نماز کی چوری کرنے والا آدمی ثواب کے معاملے میں خود اپنے نفس کا حق مارتا ہے اور اس کے بدلہ میں عذاب آخرت کو لے لیتا ہے لیکن اس نقصان و خسران کے علاوہ اس کے ہاتھ اور کچھ نہیں لگتا ۔"
-
وَعَنِ النُّعْمَانِ بْنِ مُرَّۃَ اَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ مَا تُرَوْنَ فِی الشَّارِبِ وَ الزَّانِی وَالسَّارِقِ وَذٰلِکَ قَبْلَ اَنْ تَنْزِلَ فَیْھِمُ الْحُدُوْدَ قَالُوْا اَﷲُ وَرَسُوْلَہ، اَعْلَمُ قَالَ ھُنَّ فَوَاحِشُ وَفِیْھِنَّ عَقُوْبَۃٌ وَاَسْوَءُ الْسَّرِقَۃِ الَّذِیْ یَسْرِقُ مِنْ صَلَاتِہِ قَالُوْا وَ کَیْفَ یَسْرِقُ مِنْ صَلَاتِہٖ یَا رَسُوْلَ اﷲِ قَالَ لَا یُتِمُّ رُکُوْعَھَا وَلَا سُجُوْدَ ھَا۔ (رواہ ملک و مسند احمد بن حنبل وروی دارمی نحوہ)-
" حضرت نعمان بن مرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے (صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے) فرمایا " شراب پینے والے، زنا کرنے والے، اور چوری کرنے والے کے بارے میں تم لوگوں کا کیا خیال ہے (کہ وہ کس قدر گناہ گار ہیں؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سوال حدود نازل ہونے سے پہلے کیا تھا۔ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ اللہ اور رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ گناہ کبیرہ ہیں جن کی سزا بھی ہے اور بد ترین چوری وہ چوری ہے جو انسان اپنی نماز میں کرتا ہے۔" صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم) انسان اپنی نماز میں چوری کیسے کرتا ہے' فرمایا " رکوع و سجود کو پوری طرح ادا نہیں کرتا۔" (مالک، دارمی) تشریح نقل کردہ روایت میں لفظ ترون تا کے زبر کے ساتھ ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ تم کیا اعتقاد کرتے ہو؟ لیکن ایک نسخے میں تا کے پیش کے ساتھ بھی ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ تمہارا کیا خیال ہے؟ راوی کے الفاظ میں یہ سوال حدود نازل ہونے سے پہلے کیا تھا۔ وجہ سوال کو ظاہر کر رہے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سوال صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اس وقت کیا تھا جب کہ ان افعال کی برائی صحابہ کرام کو اچھی طرح معلوم نہ تھی جب ان افعال بد کی حدود (سزائیں) متعین ہوگئیں تو پھر سب کے ذہن میں ان کی برائی راسخ ہوگئی اور ان میں کوئی شبہ نہ رہا۔
-