رومیوں سے جنگ اور دجال کے قتل کی پیشگوئی

وعن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا تقوم الساعة حتى ينزل الروم بالأعماق أو بدابق فيخرج إليهم جيش من المدينة من خيار أهل الأرض يومئذ فإذا تصافوا قالت الروم خلوا بيننا وبين الذين سبوا منا نقاتلهم فيقول المسلمون لا والله لا نخلي بينكم وبين إخواننا فيقاتلونهم فينهزم ثلث لا يتوب الله عليهم أبدا ويقتل ثلثهم أفضل الشهداء عند الله ويفتتح الثلث لا يفتنون أبدا فيفتتحون قسطنطينية فبينا هم يقتسمون الغنائم قد علقوا سيوفهم بالزيتون إذ صاح فيهم الشيطان إن المسيح قد خلفكم في أهليكم فيخرجون وذلك باطل فإذا جاؤوا الشام خرج فبينا هم يعدون للقتال يسوون الصفوف إذ أقيمت الصلاة فينزل عيسى بن مريم فأمهم فإذا رآه عدو الله ذاب كما يذوب الملح في الماء فلو تركه لانذاب حتى يهلك ولكن يقتله الله بيده فيريهم دمه في حربته-
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک کہ رومی اعماق یا دابق میں آ نہ دھمکیں گے اور پھر مدینہ والوں کا ایک لشکر ان کے مقابلے کے لئے نکلے گا جس میں اس دن یعنی اس وقت کے روئے زمین کے سب سے بہتر لوگ شال ہوں گے جب لڑائی کے لئے صف بندی ہوگی تو رومی یہ کہیں گے کہ ہمارے ان لوگوں کے درمیان کہ جو ہمارے لوگوں کو قید کر کے لائے ہیں، جگہ خالی کر دو تاکہ ہم ان سے لڑیں (یعنی جن مسلمانوں نے اس سے پہلے ہمارے خلاف جہاد کیا اور ہمارے کچھ لوگوں کو قیدی بنا کر لے آئے ان مسلمانوں کو ہمارے مقابلہ پر لاؤ کیونکہ ہم تم سب مسلمانوں سے لڑنا نہیں چاہتے بلکہ بدلہ اتارنے کے لئے صرف ان ہی مسلمانوں سے لڑنا چاہتے ہیں۔ گویا رومی یہ بات اس لئے کہیں تاکہ مسلمان ان کی باتوں میں آ کر اپنی اجتماعیت کھو دیں اور باہمی تفریق کا شکار ہو جائیں) لیکن مسلمان ان کو جواب دیں گے کہ بخدا ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔ ہم تمہارے اور اپنے ان مسلمان بھائیوں کے درمیان جگہ خالی نہیں کر سکتے یعنی یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم ان مسلمان بھائیوں کو تو تمہارے مقابلہ پر لڑنے کے لئے آگے کر دیں اور خود ایک طرف ہو جائیں، اگر لڑیں تو ہم سب لڑیں گے اور ایک ساتھ لڑیں گے چنانچہ سارے مسلمان رومیوں سے لڑنا شروع کر دیں گے اور جب گھمسان کا رن پڑے گا تو ان مسلمانوں میں سے ایک تہائی مسلمان بیٹھ دکھا کر بھاگ کھڑے ہوں گے، جن کو اللہ تعالیٰ کبھی معاف نہیں کرے گا۔ اور ایک تہائی مسلمان جام شہادت نوش کریں گے، جو یقینا اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہترین شہید قرار پائیں گے۔ اور باقی ایک تہائی مسلمان فتح یاب ہوں گے۔ (یعنی اللہ تعالیٰ ان کو اپنی مدد ونصرت کے ذریعے رومیوں کے مقابلے پر کامیابی عطا فرمائے گا اور ان کے ہاتھوں رومیوں کے شہروں کو فتح کرائے گا ان مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کبھی فتنہ میں نہیں ڈالے گا۔ پھر مسلمان قسطنطنیہ کو فتح کر لیں گے (یعنی اس شہر کو کافروں کے قبضہ سے لے لیں گے) اور اس کے بعد اس وقت جب کہ وہ مسلمان مال غنیمت تقسیم کرنے میں مصروف ہوں گے اور اپنی تلوار کو زیتون کے درختوں پر لٹکائے ہوئے ہوں گے اچانک شیطان ان کے درمیان یہ بات پھونک دے گا کہ مسلمانو! تم یہاں مصروف ہو جب کہ تمہاری عدم موجودگی میں مسیح دجال تمہارے گھروں میں پہنچ گیا ہے ۔ اسلامی لشکر کے لوگ یہ سنتے ہی قسطنطنیہ سے نکل کھڑے ہوں گے لیکن شیطان کی یہ خبر سراسر جھوٹی ثابت ہوگی، البتہ جب مسلمان شام پہنچیں گے تو پھر دجال ظاہر ہوگا مسلمان اس سے لڑنے کی تیاری کریں گے اور صف بندی میں مشغول ہوں گے کہ نماز کا وقت آ جائے گا اور مؤذن تکبیر کہنے کے لئے کھڑا ہو چکا ہوگا۔ اتنے میں حضرت عیسی بن مریم علیہ السلام آسمان سے دمشق کی جامع مسجد کے منارے پر اتریں گے پھر قدس آئیں گے اور مسلمانوں کی امات کریں گے۔ پھر خدا کا وہ دشمن یعنی دجال جو اس وقت مسلمانوں کو گھیرے ہوئے ہوگا جب حضرت عیسی علیہ السلام کو دیکھے گا تو اس طرح گھلنا شروع ہو جائے گا جس طرح نمک پانی میں گھلنے لگتا ہے کہ اگر حضرت عیسی علیہ السلام اس کو اس حالت میں چھوڑ دیں اور قتل نہ کریں تو وہ سارا گھل جائے گا اور حضرت عیسی علیہ السلام کے قتل کئے بغیر خود مر جائے ۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی مشیت ومرضی چونکہ یہ ہوگی کہ اس کی موت حضرت عیسی علیہ السلام کے ہاتھوں واقع ہو اس لئے اس کو حضرت عیسی علیہ السلام کے ہاتھوں قتل کروائے گا ، پھر حضرت عیسی علیہ السلام مسلمانوں کو یا کافروں کو اور یا سب کو دجال کا خون اپنے نیزے کے ذریعے دکھائے گا یعنی حضرت عیسی علیہ السلام جس نیزے سے دجال کو قتل کریں گے اور جو اس کے خون سے آلودہ ہوگا اس کو لوگوں کو دکھائیں گے کہ دیکھو میں نے اس دشمن خدا کا کام تمام کر دیا ہے۔ (مسلم) تشریح " اعماق' ' اطراف مدینہ میں ایک جگہ کا نام تھا اسی طرح " وابق" مدینہ کے ایک بازار کا نام تھا ۔ لیکن ایک قول جو زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے یہ ہے کہ اس حدیث میں مدینہ سے مراد شہر حلب ہے جو ملک شام میں واقع ہے اور اعماق و وابق حلب و انطاکیہ کے درمیان دو مقامات کے نام ہیں، چنانچہ کتاب ازہار میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ مدینہ سے مراد مدینۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مراد لینا صحیح نہیں ہے کیونکہ حدیث میں جس زمانہ کے واقعہ کے بارے میں پیش گوئی فرمائی گئی ہے اس وقت مدینہ منورہ کسی طرح بھی تخریب کاری یا کسی اسلام دشمن حملہ سے بالکل محفوظ ومامن ہوگا بعض حضرات نے یہ بھی کہا ہے کہ مدینہ سے مراد شہر دمشق ہے۔ " جن کو اللہ تعالیٰ کبھی معاف نہیں کرے گا " سے اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ ان لوگوں کی موت کفر کی حالت میں ہوگی اور وہ کبھی بھی عذاب سے نجات نہیں پائیں گے۔ " ان مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کبھی فتنہ میں نہیں ڈالے گا " کا مطلب یہ ہے کہ وہ مسلمان اپنے جس ایمانی استقلال وعزیمت اور اسلامی شجاعت وبہادری کا ثبوت دیں گے اس کا انعام ان کو یہ ملے گا کہ اللہ تعالیٰ ان کو کبھی بھی کسی آفت وبلا میں نہیں ڈالے گا اور نہ جان وخون کی کسی آزمائش سے دوچار کرے گا۔ یا یہ کہ اللہ تعالیٰ ان مسلمانوں کو کبھی بھی عذاب میں مبتلا نہیں کرے گا پس یہ اس بات کی بشارت ہے کہ ان لوگوں کا خاتمہ بخیر ہوگا۔ " قسطنطنیہ" کے بارے میں زیادہ مشہور اور صحیح قول یہ ہے کہ اصل میں یہ لفظ " قسطنطینہ" ہے لیکن بعض حضرات نے قسطنطینیہ کو زیادہ صحیح کہا ہے چنانچہ مشکوۃ کے اکثر نسخوں میں یہ لفظ اسی طرح ہے اور بعض نسخوں میں یہ لفظ اس طرح منقول ہے کہ آخری حرف ی پر تشدید نہیں ہے، بہرحال اردو میں یہ لفظ " قسطنطنیہ" لکھا پڑھا جاتا ہے۔ قسطنطنیہ تاریخ کا ایک مشہور شہر ہے جو اپنے زمانہ میں رومیوں کا دارالسلطنت تھا اور ان کے سب سے بڑے شہروں میں ایک بڑا شہر مانا جاتا تھا ، یہ شہر قسطنطین بادشاہ کی طرف منسوب ہے جس نے اس کو ٣٣٠ء میں بسایا اور رومی سلطنت کا پایہ تخت قرار پایا ۔ اب اس شہر کو جو آبنائے فاسفورس کے کنارے واقع ہے استنبول کہا جاتا ہے اور ترکی کی مملکت میں شامل ہے ترمذی نے وضاحت کی ہے کہ یہ شہر صحابہ کے زمانہ میں فتح ہو گیا تھا اور تاریخی روایات کے مطابق دوسری مرتبہ یہ شہر ١٤٥٣ء میں عثمانی ترکوں کے ذریعے فتح ہوا اور اب تک اس پر مسلمانوں کا قبضہ ہے لیکن اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ شہر ایک مرتبہ پھر مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل جائے گا اور پھر آخری زمانہ میں جب کہ قیامت قریب ہوگی ، مسلمان اس کو فتح کر لیں گے اور اسی زمانہ میں کانے دجال کا ظہور ہوگا۔ فاذا جاء الشام (جب مسلمان شام پہنچیں گے) میں " شام" سے مراد " قدس" ہے جس کو " بیت المقدس" کہا جاتا ہے چنانچہ بعض روایتوں میں اس کی تصریح بھی ہے اور اس وقت بیت المقدس ملک شام ہی کی حدود میں تھا اب یہ فلسطین میں ہے جو ایک مستقل ملک ہے۔ " اور مسلمانوں کی امامت کریں گے" کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت نماز تیار ہوگی اس لئے حضرت عیسی علیہ السلام تمام مسلمانوں کو نماز پڑھائیں گے اور ان مسلمانوں میں حضرت امام مہدی بھی ہوں گے۔ لیکن ایک روایت میں یہ ہے کہ اس وقت حضرت عیسی علیہ السلام امامت کرنے کے لئے حضرت امام مہدی کو آگے بڑھائیں گے اور ان سے فرمائیں گے کہ اس نماز کی اقامت چونکہ تمہاری امامت کے لئے کہی گئی ہے اس لئے تم ہی نماز پڑھاؤ اس بات سے حضرت عیسی علیہ السلام کا مقصود اس طرف اشارہ کرنا بھی ہوگا کہ اب مسلمانوں کے امیر وامام چونکہ تم ہو اس لئے مجھے بھی تمہاری اتباع کرنا چاہئے ، نہ کہ تم میری اتباع کرو گے، میں مستقل طور پر امام وامیر بنا کر نہیں بھیجا گیا ہوں بلکہ میرا آنا صرف تمہاری مدد ومعاونت اور تمہاری تائید وتوثیق کے لئے ہے۔ چنانچہ حضرت مہدی رضی اللہ عنہ اس نماز کی امامت فرمائیں گے ۔ لیکن اس کے بعد نماز کی امامت برابر حضرت عیسی علیہ السلام فرمائیں گے۔ اس صورت میں کہا جائے گا کہ حدیث میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ فامہم (اور مسلمانوں کی امامت کریں گے) تو یہ تغلیبا ارشاد فرمایا گیا ہے یعنی بعد میں چونکہ حضرت عیسی علیہ السلام ہی مسلمانوں کو نماز پڑھایا کریں گے ، پس اس اعتبار سے اس وقت کی نماز کے بارے میں بھی فرمایا گیا ہے کہ وہ مسلمانوں کی امامت کریں گے۔ یا یہ کہ امامت کریں گے" کے مجازی معنی مراد ہیں ۔ یعنی حضرت عیسی علیہ السلام اس وقت مسلمانوں کے امام حضرت مہدی رضی اللہ عنہ کو امامت کے لئے کہیں گے۔
-
وعن عبد الله بن مسعود قال إن الساعة لا تقوم حتى لا يقسم ميراث ولا يفرح بغنيمة . ثم قال عدو يجمعون لأهل الشام ويجمع لهم أهل الإسلام ( يعني الروم ) فيتشرط المسلمون شرطة للموت لا ترجع إلا غالبة فيقتتلون حتى يحجز بينهم الليل فيفيء هؤلاء وهؤلاء كل غير غالب وتفنى الشرطة ثم يتشرط المسلمون شرطة للموت لا ترجع إلا غالبة فيقتتلون حت يحجز بينهم الليل فيفيء هؤلاء وهؤلاء كل غير غالب وتفنى الشرطة ثم يشترط المسلمون شرطة للموت لا ترجع إلا غالبة فيقتتلون حتى يمسوا فيفيء هؤلاء وهؤلاء كل غير غالب وتفنى الشرطة فإذا كان يوم الرابع نهد إليهم بقية أهل الإسلام فيجعل الله الدبرة عليهم فيقتلون مقتلة لم ير مثلها حتى إن الطائر ليمر يجنابتهم فلا يخلفهم حتى يخر ميتا فيتعاد بنو الأب كانوا مائة فلا يجدونه بقي منهم إلا الرجل الواحد فبأي غنيمة يفرح أو أي ميراث يقسم ؟ فبينا هم كذلك إذ سمعوا ببأس هو أكبر من ذلك فجاءهم الصريخ أن الدجال قد خلفهم في ذراريهم فيرفضون ما في أيديهم ويقبلون فيبعثون عشر فوارس طليعة . قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إني لأعرف أسماءهم وأسماء آبائهم وألوان خيولهم هم خير فوارس أو من خير فوارس على ظهر الأرض يومئذ . رواه مسلم .-
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یقینا قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک کہ میراث کا تقسیم ہونا موقوف نہ ہو جائے گا۔ یعنی یا تو کفار کے مقابلہ میں مسلمانوں کے کثرت سے مارے جانے کی وجہ سے میراث کی تقسیم بند ہو جائے گی کیونکہ اس وقت جو تھوڑے بہت مسلمان بچیں گے ان کو اتنا ہوش کہاں ہوگا کہ وہ اپنے مرنے والے مورثوں کے ترکہ کی تقسیم کی طرف دھیان دیں یا شرعی احکام پر عمل آوری میں کوتاہی کے سبب لوگ میراث تقسیم کرنا بند کر دیں گے اور یا یہ کہ مرنے والے لوگ اپنے ذمہ اتنے قرض اور مطالبات چھوڑ جائیں گے کہ ان کی ادائیگی کرنے کے بعد ترکہ میں سے اتنا بچے گا ہی نہیں کہ اس کی تقسیم کی نوبت آئے اور جب تک مال غنیمت سے خوش ہونا نہ چھوڑیں گے (یعنی قیامت قائم ہونے سے پہلے ایک بات تو یہ ہوگی میراث کی تقسیم نہ ہو پائے گی اور دوسری بات یہ ہوگی کہ مسلمان غنیمت کے مال سے خوش نہیں ہوا کریں گے اور یہ خوش نہ ہونا یا تو اس اعتبار سے ہوگا کہ مال غنیمت ملنا ہی بند ہو جائے گا اور جب مال ملے گا نہیں تو کوئی خوش کہاں سے ہوگا اور یا خوش نہ ہونے سے یہ مراد ہے کہ جو لوگ مال غنیمت کی حفاظت وتقسیم کے ذمہ دار ہوں گے وہ خیانت و بددیانتی کا ارتکاب کرنے لگیں گے جس کی وجہ سے مال غنیمت ایماندار اور بادیانت لوگوں کے لئے کسی خوشی کا باعث نہیں ہوگا ) پھر حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان دونوں باتوں کی حقیقت کو واضح کرنے اور صورت واقعہ ظاہر کرنے کے لئے بیان کیا کہ دشمن یعنی کافر اہل شام سے لڑنے کے لئے فوج اور طاقت جمع کریں گے ۔ ادھر مسلمان بھی ان کافروں سے مقابلہ کے لئے لشکر اور طاقت جمع کریں گے دشمن سے مراد رومی ہیں ، چنانچہ مسلمان اپنے لشکر میں کچھ فوج منتخب کر کے آگے بھیجیں گے تاکہ وہ جنگ کرے اور مر جائے اور اگر واپس آئے تو فتح یاب اور غالب ہو کر آئے۔ پس دونوں طرف کے لشکر ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہو جائیں گے اور جنگ شروع ہو جائے گی یہاں تک کہ دونوں لشکروں کے درمیان رات حائل ہو جائے گی اور جنگ کو روک دے گی نیز دونوں فریق اپنے اپنے ٹھکانوں میں واپس آ جائیں گے اور ان میں سے نہ کوئی غالب وفتح یاب ہوگا اور نہ کوئی مغلوب ومفتوح البتہ دونوں طرف کی فوج کے وہ چیدہ اور منتخب دستے جو لڑنے کے لئے آگے گئے ہوں گے فنا کے گھاٹ اتر جائیں گے یعنی دونوں طرف کے لشکروں نے اپنے جن چیدہ فوجیوں کو لڑنے کے لئے آگے بھیجا ہوگا وہ اس دن کی جنگ میں کام آ جائیں گے۔ اور باقی تمام فوجی اپنے اپنے ٹھکانوں پر واپس آ جائیں گے، اس طرح اس دن کی جنگ میں دونوں فریق برابر سرابر رہیں گے، نہ کوئی غالب ہوگا نہ کوئی مغلوب پھر دوسرے دن مسلمان ایک دوسرے لشکر کو منتخب کر کے آگے بھیجیں گے تاکہ وہ جنگ کرے اور مر جائے اور واپس آئے تو فتح یاب ہو کر آئے پس دونوں طرف کے لشکر ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہو جائیں گے یہاں تک کہ دونوں لشکروں کے درمیان رات حائل ہو جائے گی، اور دونوں طرف کی فوجیں اپنے اپنے ٹھکانوں پر واپس آ جائیں گی ان میں سے نہ کوئی غالب ہوگا نہ کوئی مغلوب البتہ دونوں طرف کی فوج کے وہ چیدہ دستے جو لڑنے کے لئے آگے گئے ہوں گے فنا کے گھاٹ اتر جائیں گے پھر تیسرے دن مسلمان ایک اور لشکر کو منتخب کر کے آگے بھیجیں گے تاکہ وہ جنگ کرے اور مر جائے اور اگر واپس آئے تو فتح یاب ہو کر آئے ، پس دونوں طرف کے لشکر کو ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہو جائیں گے یہاں تک کہ شام ہو جائے گی اور دنوں اطراف کے فوجی اپنے اپنے ٹھکانوں پر واپس آ جائیں گے ان میں سے نہ کوئی غالب ہوگا نہ کوئی مغلوب البتہ دونوں طرف کے چیدہ دستے جو لڑنے کے لئے آگے گئے ہوں گے فنا کے گھاٹ اتر جائیں گے۔ اور پھر جب چوتھا دن ہوگا تو مسلمانوں کی باقی ماندہ فوج کفار سے جنگ کے لئے نکل کھڑی ہوگی اور اللہ تعالیٰ ان کے ہاتھوں کفار کو شکست دلوائے گا۔ بہرحال اس دن نہایت سخت اور خوفناک جنگ ہوگی اور مسلمان جان توڑ کر لڑیں گے اور ایسا لڑیں گے کہ اس طرح کی لڑائی کبھی نہیں دیکھی گئی ہوگی، یہاں تک کہ اگر کوئی پرندہ لشکر والوں کے اوپر سے گزر جانا چاہے گا تو ان کو پیچھے نہیں چھوڑ پائے گا یعنی ان سے آگے نہیں گزر سکے گا کہ مر کر زمین پر گر پڑے گا مطلب یہ کہ اس لڑائی میں اس کثرت سے لوگ مارے جائیں گے کہ پورا میدان جنگ لاشوں پٹا پڑا ہوگا اور اگر کوئی پرندہ ان لاشوں کے اوپر سے گزر کر جانا چاہے گا تو آگے نہیں جا پائے گا بلکہ لاشوں کے ناقابل برداشت بدبو کی وجہ سے مر کر گر پڑے گا یا یہ کہ وہ میدان جنگ اتنا وسیع اور طویل ہوگی کہ اگر کوئی پرندہ اس کے ایک سرے سے اڑ کر دوسرے سرے تک جانا چاہے گا تو نہیں جا پائے گا بلکہ اڑتے اڑتے تھک جائے گا اور مر کر گر پڑے گا۔ پھر جب ایک باپ کے بیٹے یعنی کسی ایک خاندان یا کسی ایک سلسلے کے لوگ کہ جن کی تعداد سو ہوگی اپنوں کو شمار کرنا شروع کریں تو ان میں سے صرف ایک مل پائے گا یعنی جنگ ختم ہونے کے بعد باقی ماندہ لشکر کے لوگ جانی نقصان کا جائزہ لینا شروع کریں گے، چنانچہ ہر شخص اپنے اقا رب اور متعلقین کو شمار کرے گا تو اسے معلوم ہوگا کہ اگر اس کے اقا رب اور متعلقین سو کی تعداد میں جنگ میں شریک ہوئے تھے تو ان سو لوگوں میں سے ایک ہی شخص زندہ بچا ہے باقی سب کام آ گئے ہیں، حاصل یہ کہ اس جنگ میں جانی نقصان اس کثرت سے ہوگا کہ زندہ بچ رہنے والوں کا تناسب سو میں ایک ہوگا پس ایسی صورت میں جب کہ مرنے والوں کی تعداد اس قدر بڑی ہوگی کون سا مال غنیمت خوشی کا باعث ہوگا اور کونسی میراث تقسیم ہوگی؟ بہرحال مسلمان اسی حالت میں ہوں گے کہ اچانک ان کو ایک سخت لڑائی کی خبر معلوم ہوگی، جو پہلی لڑائی سے بھی زیادہ بڑی اور بھیانک ہوگی، پھر مسلمان یہ آواز سنیں گے کہ جیسے کوئی اعلان کرنے والا اعلان کر رہا ہے کہ ان کی عدم موجودگی میں ان کے اہل وعیال کے درمیان دجال پہنچ گیا ہے (یہ خبر سنتے ہی وہ) مسلمان اپنے ہاتھ کی چیزوں یعنی مال غنیمت کی اشیاء کو کہ جو انہیں ملی ہوں گی پھینک پھینک کر دجال کی طرف متوجہ ہو جائیں گے اور پہلے وہ اپنے دس سواروں کو آگے بھیجیں گے تاکہ دشمن کے بارے میں واقفیت بہم پہنچائیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ مسلمان جن سواروں کو آگے بھیجیں گے یقینا میں ان کے اور ان کے باپ کے نام بھی جانتا ہوں اور یہ بھی جانتا ہوں کہ ان کے گھوڑے کس رنگ کے ہوں گے نیز وہ بہترین سوار ہوں گے، یا یہ فرمایا کہ وہ اس زمانہ کے روئے زمین کے بہتر سواروں میں سے ہوں گے۔ (مسلم) تشریح " شرطہ" فوج کے اس جانباز دستہ کو کہتے ہیں جو لشکر کے بالکل آگے ہو اور اپنی جانیں تک قربان کر دینے کے عزم کے ساتھ میدان جنگ میں سب سے پہلے کودے۔ " یتشرط" کا لفظ اسی سے مشتق ہے جو باب تفعل سے نکالا گیا ہے نیز یہ لفظ باب افتعال سے " یشترط" بھی نقل کیا گیا ہے بہرحال یہ جملہ لاترجع الا غالبۃ اصل میں شرطہ للموت کی صفت کا شفہ مبینہ موضحہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کا لشکر اپنے جس جانباز دستہ کو آگے بھیجے گا اس کو یہ ہدایت ہوگی کہ وہ کسی بھی حالت میں دشمن کے مقابلے سے بھاگے گا نہیں بلکہ سخت سخت حالت میں بھی محاذ پر ڈٹا رہے ، یہاں تک کہ دشمن کو فنا کے گھاٹ اتار کر سرخ رو لوٹے یا خود فنا کے گھاٹ اتر جائے۔ فیجعل اللہ الدبرۃ علیہم میں لفظ " دبر" ادبار کا اسم ہے بعض روایتوں میں یہ لفظ دابر بھی منقول ہے لیکن معنی کے اعتبار سے دنوں میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ دونوں ہی سے مراد شکست اور ہزیمت ہے۔ " فبای غنیمۃ" حرف ف تفریعہ یا فصیحہ ہے اور طیبی نے لکھا ہے کہ یہ جملہ نحوی ترکیب کے اعتبار سے جزاء ہے شرط محذوف کی کہ پہلے تو مبہم طور پر فرمایا کہ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک کہ میراث کا تقسیم ہونا موقوف نہ ہو جائے گا اور مسلمان مال غنیمت سے خوش ہونا چھوڑ دیں گے ۔ اس کے بعد جملہ کی وضاحت آگے کی عبارت عدو یجمعون الخ دشمن یعنی کافر اہل اسلام سے لڑنے کے لئے فوج اور طاقت جمع کریں گے الخ۔ کے ذریعے کی ، اور اس وضاحت کو مذکورہ صفت (یعنی بڑی بھیانک اور خوفناک جنگ ہونے اور اس میں اس قدر جانی نقصان ہونے) کے ساتھ مقید کیا کہ میراث اس لئے تقسیم نہیں ہوگی اور مسلمانوں کو مال غنیمت سے اس لئے خوشی نہیں ہوگی کہ جہاں اتنا زیادہ جانی نقصان ہوا اور اس قدر کثرت سے لوگ مارے گئے ہوں وہاں تقسیم کہاں اور خوشی کہاں؟ " طلیعہ " کریمہ کے وزن پر ہے اور اس کے معنی اس شخص کے ہیں جس کو دشمن کی خبر لانے کے لئے آگے بھیجا جائے ۔ چنانچہ ان دس سواروں سے مراد فوجی جاسوسوں کی وہ ٹکڑی ہے جس کو دشمن کے حالات، ساز و سامان اور قوت وتعداد کی خبر لانے کے لئے دشمن کے ٹھکانوں کی طرف روانہ کیا جائے گا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد " میں ان کے اور ان کے باپ کا نام جانتا ہوں الخ" اعجاز نبوت کی دلیل ہے، یعنی یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معجزہ تھا کہ سینکڑوں سال بعد وقوع پذیر ہونے والے کسی واقعہ سے متعلق افراد کے نام اور ان کے باپ کے نام اور ان کے گھوڑوں کے رنگ تک کا علم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تھا، نیز یہ بات اس امر کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کا علم ہر چیز کی کلیات وجزئیات کو محیط ہے اور اس نے جس چیز کے بارے میں جس قدر مناسب جانا اس قدر علم اپنے رسول کو بھی عطا فرما دیا۔
-