روزہ کی حالت میں قے ہونے کا مسئلہ

وعن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " من ذرعه القيء وهو صائم فليس عليه قضاء ومن استقاء عمدا فليقض " . رواه الترمذي وأبو داود وابن ماجه والدارمي . وقال الترمذي : هذا حديث غريب لا نعرفه إلا من حديث عيسى بن يونس . وقال محمد يعني البخاري لا أراه محفوظا-
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس شخص پر قے غالب آ جائے (یعنی خود بخود قے آئے) اور وہ روزہ سے ہو تو اس پر قضا نہیں ہے اور جو شخص (حلق میں انگلی وغیرہ ڈال کر) قصدا قے کرے تو اسے چاہئے کہ وہ اپنے روزے کی قضا کرے (ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ، دارمی ،) اور امام ترمذی فرماتے ہیں کہ ہم اس حدیث کو عیسیٰ بن یونس کے علاوہ اور کسی سند سے نہیں جانتے، نیز محمد (یعنی امام بخاری) فرماتے ہیں کہ میں اس حدیث کو محفوظ نہیں سمجھتا (یعنی یہ حدیث منکر ہے)۔ تشریح ومن استاء عمدا (اور جو شخص قے کرے) میں قصدا کی قید لگا کر گویا بھول چوک کا استثناء فرمایا گیا ہے یعنی اگر کوئی روزہ دار اس حال میں قصدا قے کرے کہ اسے اپنا روزہ یاد ہو تو اس کا روزہ جاتا رہے گا اور اس پر قضا واجب ہو گی برخلاف اس کے اگر کوئی روزہ دار قصدا قے کرے مگر اسے یاد نہ رہا ہو کہ میں روزہ سے ہوں تو اس پر قضا واجب نہیں ہو گی۔ قے کے سلسلے میں پوری وضاحت ابتداء باب میں کی جا چکی ہے۔ اس مسئلہ کو تفصیل کے ساتھ اس موقع پر دیکھا جا سکتا ہے۔
-
وعن معدان بن طلحة أن أبا الدرداء حدثه أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قاء فأفطر . قال : فلقيت ثوبان في مسجد دمشق فقلت : إن أبا الدرداء حدثني أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قاء فأفطر . قال : صدق وأنا صببت له وضوءه . رواه أبو داود والترمذي والدارمي-
حضرت معدان بن طلحہ کے بارے میں منقول ہے کہ حضرت ابودرداء نے ان سے یہ حدیث بیان کی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (روزہ کی حالت میں) قے کی اور پھر روزہ توڑ ڈالا، معدان کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں دمشق کی مسجد میں حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے کہا کہ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ نے مجھ سے یہ حدیث بیان کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قے کی اور پھر روزہ توڑڈا لایا۔ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ابودرداء نے بالکل سچ کہا اور اس موقع پر میں نے ہی آپ کے وضو کے لیے پانی کا انتظام کیا تھا۔ (ابو داؤد، ترمذی، دارمی) تشریح مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی عذر کی وجہ سے اپنا نفل روزہ قصدا قے کر کے توڑ ڈالا تھا چاہے عذر بیماری کا رہا ہو یا ضعف و نا تو انی کا بہر کیف عذر کی قید اس لیے لگائی گئی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بغیر عذر کے نفل روزہ بھی نہیں توڑتے تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ لاتبطلوا اعمالکم۔ یعنی اپنے اعمال کو باطل نہ کرو یعنی انہیں شروع کر کے نامکمل نہ ختم کر ڈالو۔ حدیث کے آخری الفاظ وانا صببت لہ وضوءہ سے حضرت امام ابوحنیفہ اور حضرت امام احمد وغیرہ نے یہ مسئلہ اخذ کیا ہے کہ قے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے حضرت امام شافعی اور دیگر علماء جو قے سے وضو ٹوٹنے کے قائل نہیں ہیں فرماتے ہیں کہ یہاں سے وضو کرنے سے مراد کلی کرنا اور منہ دھونا مراد ہے۔ و اللہ اعلم)۔
-