رفع بدین

عَنِ ابْنِ عُمَرَ ص اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم کَانَ ےَرْفَعُ ےَدَےْہِ حَذْوَ مَنْکِبَےْہِ اِذَا افْتَتَحَ الصَّلٰوۃَ وَاِذَا کَبَّرَ لِلرُّکُوْعِ وَاِذَا رَفَعَ رَاْسَہُ مِنَ الرُّکُوْعِ رَفَعَھُمَا کَذَالِکَ وَقَالَ سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہُ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ وَکَانَ لَا ےَفْعَلُ ذَالِکَ فِی السُّجُوْدِ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کر تے تو دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے اور جب رکوع کے لیے تکبیر کہتے نیز جب رکوع سے سرا ٹھاتے تو تب بھی اسی طرح دونوں ہاتھ (کندھوں تک) اٹھاتے اور (رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے) کہتے سمع اللہ لمن حمدہ۔ ربنالک الحمد (ا اللہ نے اس آدمی کو سن لیا (یعنی اس کی تعریف قبول کر لی) جس نے اس کی حمد بیان کی۔ اے ہمارے پرودگار ! تعریف تو تیرے ہی لیے ہے) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدوں میں ایسا نہیں کرتے تھے۔" (صحیح البخاری ) تشریح رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ کا مطلب یہ کہ اے پروردگار ! دنیا کی تمام تعریفیں تیرے ہی لیے ہیں یہاں تک کہ اگر کوئی کسی آدمی کی تعریف کرتا ہے تو وہ درحقیقت تیری ہی تعریف کرتا ہے کیونکہ سب کو پیدا کرنے والا تو ہی تو ہے اس لیے مصنوع کی تعریف دراصل صانع ہی کی تعریف ہوتی ہے۔ حدیث کے اس جزو سے معلوم ہوا کہ ہر نماز پڑھنے والے کو سمع اللہ لم حمدہ اور رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ دونوں کلمات کہنے چاہئیں۔ مگر حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی آدمی تنہا نماز پڑھ رہا ہو تو اسے یہ دونوں کلمات کہنے چاہئیں مگر جماعت کی صورت میں امام صرف سمع اللہ لم حمدہ کہے اور مقتدی ربنالک الحمد کہیں۔ حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما فرماتے ہیں کہ امام کو دونوں کلمات کہنے چاہئیں اسی قول کو امام طحاوی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے بھی اختیار کیا ہے۔ بلکہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ سے بھی ایک روایت اسی قول کی تائید میں منقول ہے مقتدی کے بارے میں ان کی رائے بھی یہی ہے کہ وہ صرف رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ کہے۔ وکان لا یفعل ذلک فی السجود (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدوں میں ایسا نہیں کرتے تھے) کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح تکبیر تحریمہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع میں جانے سے پہلے اور رکوع سے سر اٹھانے کے وقت رفع یدین کرتے تھے اس طرح جب سجدے میں جاتے یا سجدے سے سر اٹھاتے تو رفع یدین نہیں کرتے تھے چنانچہ حضرات شوافع کا مختار مسلک یہی ہے کہ ان اوقات میں رفع یدین نہیں کرنا چاہئے ۔ ان حضرات کے نزدیک رفع یدین کی جو صورت ہے وہ یہی ہے کہ رفع یدین صرف تکبیر تحریمہ، رکوع میں جانے کے وقت اور رکوع سے سر اٹھانے کے وقت کرنا چاہئے۔ ان تینوں موقعوں کے علاوہ اور کسی موقعہ پر رفع یدین کو یہ حضرات صحیح نہیں مانتے۔
-
وعَنْ نَّافِعٍ (رحمۃ اللہ علیہ )اَنَّ ابْنَ عُمَرَ ص کَانَ اِذَا دَخَلَ فِی الصَّلٰوۃِ کَبَّرَ وَرَفَعَ ےَدَےْہِ وَ اِذَا رَکَعَ رَفَعَ ےَدَےْہِ وَاِذَا قَالَ سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہُ رَفَعَ ےَدَےْہِ وَاِذَا قَامَ مِنَ الرَّکْعَتَےْنِ رَفَعَ ےَدَےْہِ وَرَفَعَ ذَالِکَ ابْنُ عُمَرَ اِلَی النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم۔-
" اور حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب نماز شروع کرتے تو تکبیر کہتے اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے اور جب رکوع میں جاتے تو دونوں ہاتھ اٹھاتے اور جب سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تو دونوں ہاتھ اٹھاتے اور جب دو رکعتیں پڑھ کر اٹھتے تب بھی دونوں ہاتھ اٹھاتے تھے۔ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس حدیث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی ہوئی نقل کرتے تھے (یعنی وہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی طرح کیا ہے۔)" (صحیح البخاری)
-