رسول اللہ کی علالت اور حضرت ابوبکر صدیق کی امامت کا واقعہ

عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ لَمَّا ثَقُلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم جَآءَ بِلَالٌ ےُّؤْذِنُہُ بِالصَّلٰوۃِ فَقَالَ مُرُوْا اَبَا بَکْرٍ اَنْ ےُّصَلِّیَ بِالنَّاسِ فَصَلّٰی اَبُوْ بَکْرٍ تِلْکَ الْاَےَّامَ ثُمَّ اِنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم وَجَدَ فِیْ نَفْسِہٖ خِفَّۃً فَقَامَ ےُھَادٰی بَےْنَ رَجُلَےْنِ وَرِجْلَاہُ تَخُطَّانِ فِی الْاَرْضِ حَتّٰی دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَلَمَّا سَمِعَ اَبُوْ بَکْرٍ حِسَّہُ ذَھَبَ ےَتَاَخَّرُ فَاَوْمٰی اِلَےْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَنْ لَّا ےَتَاَخَّرَ فَجَآءَ حَتّٰی جَلَسَ عَنْ ےَّسَارِ اَبِیْ بَکْرٍ فَکَانَ اَبُوْ بَکْرٍ ےُّصَلِّیْ قَآئِمًا وَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ےُصَلِّیْ قَاعِدًا ےَّقْتَدِیْ اَبُوْ بَکْرٍ بِصَلٰوۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَالنَّاسُ ےَقْتَدُوْنَ بِصَلٰوۃِ اَبِیْ بَکْرٍ مُتَّفَقٌ عَلَےْہِ وَفِیْ رِوَاےَۃٍ لَّھُمَا ےَسْمَعُ اَبُوْ بَکْرِ النَّاسَ التَّکْبِےْرَ۔-
" اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت زیادہ بیمار تھے تو (ایک دن) حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کے لیے بلانے آئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں کو ان دنوں میں سترہ نمازیں پڑھائیں پھر جب (ایک دن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طبیعت کچھ ہلکی محسوس فرمائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم (نماز کے لیے مسجد میں) دو آدمیوں کا سہارا لے کر (اس طرح) آئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ سے صحابہ کے کندھوں پر ٹیک رکھے ہوئے تھے اور (ضعف و کمزوری کے سبب) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں مبارک زمین پر گھسٹتے جاتے تھے جب آپ مسجد میں داخل ہوئے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی آہٹ محسوس کی اور پیچھے ہٹنا شروع کیا (تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی جگہ کھڑے ہو جائیں اور امامت کریں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ دیکھ کر) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف اشارہ کیا کہ پیچھے نہ ہٹو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم (آگے) بڑھے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بائیں طرف بیٹھ گئے چنانچہ حضرت ابوبکر کھڑے ہو کر نماز پڑھتے رہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم " ضعف و کمزوری کی بناء پر ) بیٹھ کر نماز پڑھتے رہے حضرت ابوبکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی اقتدا کر رہے تھے اور لوگ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نماز کی اقتداء کرتے تھے۔" (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح شرح السنہ میں لکھا ہے کہ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد " کہ ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تمام لوگوں میں سے افضل ہیں نیز یہ کہ تمام لوگوں میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خلافت کے سب سے زیادہ مستحق اور سب سے اولیٰ ہیں چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امامت کے اس عظیم اور سب سے اہم منصب کا اہل و اولی قرار دئیے جانے کی پیش نظر ہی بعض جلیل القدر صحابہ کا یہ ارشاد بالکل حقیقت پسندانہ اور منشاء رسالت کے عین مطابق تھا کہ " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر کو اپنی زندگی میں دین کا سب سے بڑا اور اہم منصب امامت عنایت فرما کر اس بات کی طرف اشارہ فرما دیا تھا کہ میرے بعد حضرت ابوبکر کو ہمارے دین (کی پیشوائی) کے لیے پسند فرمایا تو کیا ہم انہیں اپنی دنیا کی رہبری کے لیے پسند نہ کریں؟ یعنی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر ہی کی وہ آدمییت ہو سکتی ہے جو مسلمانوں کی دینی پیشوائی اور رہبری کو انجام دے سکے تو حضرت ابوبکر مسلمانوں کی دینوی رہبری اور پیشوائی کے بدرجہ اولی مستحق ہوئے لہٰذا خلافت جیسے عظیم الشان منصب کے سب سے زیادہ اہل وہی ہیں۔ رَجُلَیْنِ (دو صحابہ) سے مراد حضرت علی المرتضیٰ اور حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی ذات گرامی ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کمزوری و نا تو انی کے سبب حجرہ مبارک سے مسجد نبوی تک ان دونوں جلیل القدر صحابہ کے کندھوں پر سہارا دیکر تشریف لائے۔ حدیث کے الفاظ والناس یقتدون بصلوۃ ابی بکر ( اور لوگ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نماز کی اقتدا کر رہے تھے) کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ بیٹھ کر نماز پڑھا رہے تھے اور حضرت ابوبکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلوئے مبارک میں کھڑے تھے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو فعل کرتے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اس طرح کرتے تھے اور جو فعل حضرت ابوبکر کرتے تھے دوسرے مقتدی بھی اسی طرح کرتے جاتے تھے۔ لہٰذا یہاں اقتداء کے یہی معنی ہیں یہ معنی مراد نہیں ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو حضرت ابوبکر کے امام تھے اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ دوسرے مقتدیوں کے امام تھے کیونکہ مقتدی کی اقتداء کرنا جائز نہیں۔ بہر حال حاصل یہ ہے امام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے حضرت ابوبکر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کر رہے تھے اور دوسرے لوگ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی اقتداء میں نماز پڑھ رہے تھے۔ کیا نماز کے دوران امامت میں تغیر جائز ہے۔ یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نماز کے دوران امامت میں تغیر جائز ہے ؟ یعنی نماز شروع چکی ہے ایک امام لوگوں کو نماز پڑھا رہا ہے اور ایک دوسرا آدمی آتا ہے اور شروع سے نماز پڑھانے والے امام کی جگہ کھڑا ہوجاتا ہے اور امامت شروع کر دیتا ہے تو کیا یہ جائز ہے؟ جیسا کہ واقعہ مذکورہ میں صورت پیش آئی کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں کو نماز پڑھانی شروع کر دی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعد میں تشریف لائے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جگہ لوگوں کی امامت شروع فرمادی ! تو اس سلسلے میں علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ علماء کا اس بارے میں اجماع ہے کہ صورت مذکور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فعل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں تھا ، یعنی دوسروں کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ اس طرح امامت میں تغیر کیا جائے۔ لیکن حضرت امام شافعی نے اس میں اختلاف کیا ہے اور کہا ہے کہ مذکورہ بالا صورت کی طرح امامت اور اقتداء جائز ہے (ملا حظہ فرمایئے مرقاۃ شرح مشکوٰۃ) اس سلسلے میں بعض علماء حضرات نے یہ بھی کہا ہے کہ اس حدیث سے یہ بات معلوم نہیں ہوتی کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز شروع کر چکے تھے یعنی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس وقت نماز شروع نہیں کی تھی چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور امامت شروع فرما دی۔ وا اللہ اعلم اس حدیث سے یہ مسئلہ بھی صاف ہو گیا کہ اگر امام کسی عذر کی بناء پر بیٹھ کر نماز پڑھائے تو مقتدی کھڑے ہو کر ہی نماز پڑھیں چنانچہ ہدایہ میں لکھا ہوا ہے کہ بیٹھ کر نماز پڑھانے والے امام کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھی جائے۔ نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جمعہ ، عیدین نیز زیادہ نمازی ہونے کی صورت میں عام نمازوں میں بھی موذنوں کے لیے جائز ہے کہ وہ امام کے ساتھ تکبیرات بآواز بلند کہتے جائیں تاکہ جو مقتدی امام سے فاصلے پر ہوں وہ بھی تکبیرات سن لیں۔
-