TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
نماز کا بیان
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قومہ و سجدہ
عَنِ الْبَرَآئِ قَالَ کَانَ رُکُوْعُ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم وَسُجُوْدُہُ وَبَےْنَ السَّجْدَتَےْنِ وَاِذَا رَفَعَ مِنَ الرُّکُوْعِ مَا خَلَا الْقِےَامَ وَالْقُعُوْدَ قَرِےبًا مِنَ السَّوَآئِ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت براء ابن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ قیام و قعود کے علاوہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کا رکوع، سجدہ، دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنا اور رکوع سے سر اٹھانا یہ چاروں چیزیں مقدار میں تقریباً برابر ہوتی تھیں۔ " (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارکان نماز کی مقدار اس طرح بیان کی جاری ہے کہ چار ارکان یعنی رکوع ، قومہ ، سجدہ اور جلسہ سب آپس میں تقریباً برابر ہوتے تھے البتہ قیام میں چونکہ قرات کرتے تھے اور قعود میں التحیات پڑھتے تھے اس لیے یہ دونوں ارکان بقیہ ارکان کے مقابلہ میں طویل ہوتے تھے۔
-
وَعَنْ اَنَسٍ صقَالَ کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَاقَالَ سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہُ قَامَ حَتّٰی نَقُوْلَ قَدْ اَوْھَمَ ثُمَّ ےَسْجُدُ وَےَقْعُدُ بَےْنَ السَّجْدَتَےْنِ حَتّٰی نَقُوْلَ قَدْ اَوْھَمَ۔ (مسلم-
" اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آقائے نا مدار صلی اللہ علیہ وسلم جب سمع اللہ لمن حمدہ کہہ کر (رکوع سے ) کھڑے ہوتے تو (اتنی دیر تک ٹھہرے رہتے کہ ہم (اپنے دل میں) کہنے لگتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکعت چھوڑ دی پھر آپ سجدے میں جاتے اور دونوں سجدوں کے درمیان اتنی دیر تک بیٹھے رہتے کہ ہم (اپنے دل میں) کہتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سجدہ چھوڑ دیا ہے۔ " (صحیح مسلم) تشریح حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع سے سر اٹھاتے تو قومہ میں کافی دیر تک کھڑے رہا کرتے تھے یہاں تک کہ بسا اوقات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اتنی دیر تک قومہ میں رہنا ہمیں اس گمان میں مبتلا کر دیتا تھا کہ شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رکعت کو کہ جس کے رکوع سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہوئے ہیں ختم کر دیا ہے اور اب از سر نو نماز شروع کر دی ہے اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے سے اٹھ کر دونوں سجدوں کے درمیان جلسہ میں اتنی دیر تک بیٹھے رہتے کہ ہمیں خیال گزرتا کہ شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پہلے سجدے کو کہ جس سے ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا ہے ختم کر دیا ہے اور بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قومہ و جلسہ میں اتنی طوالت نفل نمازوں میں کرتے ہوں گے اور یہ بھی امکان ہے کہ بیان جواز کی خاطر فرض نمازوں میں بھی کبھی کبھی کر لیتے ہوں گے۔
-
وَ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم یُکْثِرُ اَنْ ےَّقُوْلَ فِیْ رُکُوْعِہٖ وَسُجُودِہٖ سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ ےَتَاَوَّلُ الْقُرْآن۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کے حکم پر عمل کرتے ہوئے اپنے رکوع و سجود میں یہ دعا بہت کثرت سے پڑھتے تھے۔ سبحانک اللھم ربنا و بحمدک اللھم اغفرلی اے اللہ تو پاک ہے، اے ہمارے پروردگار ! میں تیری تعریف بیان کرتا ہوں، اے اللہ تو میرے گناہ بخش دے۔" (صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ قرآن میں چونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ فسبح بحمد ربک واستغفرہ یعنی اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ پاکی بیان کرو اور اس سے مغفرت مانگو" اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے اس حکم کی بجا آوری کے لیے رکوع و سجود میں اپنے پروردگار کی تسبیح و تعریف کرتے اور اس سے مغفرت مانگتے تھے کیونکہ خشوع و خضوع کے تمام مواقع و احوال میں رکوع و سجود ہی افضل ترین مواقع و محل ہیں۔ بعض احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع و سجود کے علاوہ بھی اس دعا کا ورد کرتے تھے چنانچہ بعض احادیث میں مذکور ہے کہ سورت اذاجاء کہ جس میں یہ آیت مذکور ہے نازل ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخر عمر میں یہی ذکر تھا۔
-
وَعَنْھَا اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم کَانَ ےَقُوْلُ فِیْ رُکُوْعِہٖ وَسُجُوْدِہٖ سُبُّوْحٌ قُدُّوْسٌ رَبُّ الْمَلٰئِکَۃِ وَالرُّوْحِ۔ (صحیح مسلم)-
" اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رکوع و سجود میں یہ کہا کرتے تھے ۔ سبوح قدوس رب الملائکۃ والروح فرشتوں اور روح (یعنی جبرائیل ) کا پروردگار بہت پاک ہے اور نہایت پاک ہے۔ " (صحیح مسلم)
-