رات کے بقیہ اور ادوو ظائف کودن میں پڑھ لینا چاہیے

وَعَنْ عُمَرَ ص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ نَّامَ عَنْ حِزْبِہٖ اَوْ عَنْ شَئٍ مِنْہُ فَقَرَأَہُ فِےْمَا بَےْنَ صَلٰوۃِ الْفَجْرِ وَصَلٰوۃِ الظُّہْرِ کُتِبَ لَہُ کَاَنَّمَا قَرَاَۃُ مِنَ اللَّےْلِ۔(صحیح مسلم)-
" اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کو نین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " (جو آدمی رات کو پورا وظیفہ پڑھے بغیر سو رہا یا وظیفہ کا کچھ حصہ پڑھنے سے رہ گیا اور پھر اس نے اس کو نماز فجر اور نماز ظہر کے درمیان پڑھ لیا تو اس کے لیے یہی لکھا جائے گا کہ گویا اس نے رات ہی کو پڑھا۔" (صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ کسی آدمی نے کلام اللہ، نماز اوراد و اذکار کی قسم سے کچھ وظیفہ مقرر کر رکھا ہے جسے وہ رات کو پڑھتا ہے مگر کسی دن وہ سوگیا اور اس کا پورا وظیفہ یا اس وظیفے کا کچھ حصہ رات کو پڑھنے سے رہ گیا اور اس نے نماز فجر، اور نماز ظہر کے درمیان یعنی زوال سے پہلے پڑھ لیا تو اس کے لیے رات ہی میں پڑھنے کا ثواب لکھا جاتا ہے۔ اسی طرح دن کے وظیفہ کا حکم ہے کہ اگر دن کو وظیفہ پڑھنے سے رہ گیا اور پھر اس رات کو پڑھ لیا تو اس کے لیے دن میں ہی پڑھنے کا ثواب لکھاجاتا ہے رات دن آپس میں ایک دوسرے کے خلیفے ہیں۔ حدیث میں صرف رات کے وظیفے ہی کے بارے میں اس لیے ذکر کیا گیا ہے کہ اکثر و بیشتر رات ہی کا وظیفہ رہ جاتا ہے یعنی نیند کے غلبے کی وجہ سے نماز تہجد اورادو اذکار فوت ہو جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اس حدیث کو اس باب میں ذکر کیا گیا ہے۔
-