ذکر کی مثال اور اس کی فضیلت

وعن مالك قال : بلغني أن رسول الله صلى الله عليه و سلم كان يقول : " ذاكر الله في الغافلين كالمقاتل خلف الفارين وذاكر الله في الغافلين كغصن أخضر في شجر يابس "وفي رواية : " مثل الشجرة الخضراء في وسط الشجر وذاكر الله في الغافلين مثل مصباح في بيت مظلم وذاكر الله في الغافلين يريه الله مقعده من الجنة وهو حي وذاكر الله في الغافلين يغفر له بعدد كل فصيح وأعجم " . والفصيح : بنو آدم والأعجم : البهائم . رواه رزين-
حضرت امام مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ تک یہ روایت پہنچی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں غافلوں کے درمیان خدا کا ذکر کرنے والا بھاگنے والوں کے پیچھے لڑنے والے کی مانند ہے (یعنی اس شخص کی مانند ہے) جو میدان کارزار میں اپنے لشکر کے بھاگ کھڑے ہونے کے بعد تنہا ہی کافروں کے مقابلہ میں ڈٹا رہے (ایسے شخص کی بہت ہی زیادہ فضیلت منقول ہے ) اور غافلوں کے درمیان خدا کا ذکر کرنے والا خشک درخت میں سر سبز شاخ کی مانند ہے۔ ایک روایت میں یوں ہے کہ درختوں کے درمیان سرسبز وشاداب درخت کی مانند ہے اور خدا کا ذکر کرنے والا اندھیرے گھر میں چراغ کی مانند ہے اور غافلوں میں خدا کا ذکر کرنے والا ایسا شخص ہے جس کو اللہ تعالیٰ اس کی زندگی ہی میں جنت میں اس کی جگہ دکھلاتا ہے یعنی یا تو بذریعہ مکاشفہ دکھاتا ہے یا خواب میں اور یا اس کو ایسا یقین بخشتا ہے کہ گویا وہ اسے دیکھ رہا ہے اور غافلوں میں خدا کو یاد کرنے والا ایسا شخص ہے جس کے گناہ ہر فصیح اور اعجم کے عدد بقدر بخشے جاتے ہیں، فصیح سے مراد انسان اور اعجم سے مراد جانور ہیں۔ (رزین)
-