TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
رونے اور ڈرنے کا بیان
دکھلاوے کا نماز روزہ شرک ہے
وعن شداد بن أوس قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول من صلى يرائي فقد أشرك ومن صام يرائي فقد أشرك ومن تصدق يرائي فقد أشرك رواهما أحمد .-
حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے، جس شخص نے دکھلانے کے لئے نماز پڑھی ، اس نے شرک کیا، جس شخص نے دکھلانے کو روزہ رکھا اس نے شرک کیا، اور جس شخص نے دکھلانے کو صدقہ خیرات کیا اس نے شرک کیا۔ دونوں روایتوں کو احمد نے نقل کیا ہے۔ تشریح حاصل یہ کہ ریاء کاری کے تحت جو بھی نیک کام کیا جائے گا وہ شرک کے مرادف ہوگا اگرچہ اس کو شرک خفی کہا جائے گا، کیونکہ شرک جلی کا اطلاق علی الاعلان اور آشکارا طور پر بت پرستی کرنے پر ہوتا ہے رہی یہ بات کہ ریاء کاری کو شرک خفی کس اعتبار سے کہا گیا ہے تو جاننا چاہئے کہ ریا کار جو نیک کام کرتا ہے، وہ صدق واخلاص کے ساتھ اللہ کے لئے نہیں کرتا بلکہ غیر اللہ کے لئے کرتا ہے اور جب اس نے کوئی نیک کام غیر اللہ کے لئے کیا تو گویا وہ بت پرستی کی، اگرچہ وہ کھلی ہوئی بت پرستی نہیں ہے البتہ پوشیدہ طور پر بت پرستی کے مرادف ضرور ہے جیسا کہ کہا گیا ہے ۔ کل ماصدک عن اللہ فہوصنمک۔ ملاعلی قاری کہتے ہیں کہ یہ حدیث اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ ریا کا دخل روزہ میں بھی ہو سکتا ہے اس اعتبار سے یہ حدیث گویا ان حضرات کے خلاف ایک دلیل ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ریا کا تعلق روزہ سے نہیں ہو سکتا ، اور اس کا سبب یہ بیان کرتے ہیں کہ روزے کا مدار نیت پر ہے چنانچہ جس شخص کی نیت صحیح نہ ہو اس کے کھانے پینے سے رکنے کا کوئی اعتبار نہیں ، اور ظاہر ہے کہ نیت میں ریاء کاری یعنی دکھلاوے کا عمل دخل کیا ہو سکتا ہے۔ لیکن ہمارا کہنا یہ ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ حقیقی معنی میں ریا، یعنی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص کسی نیک کام اور کسی عبادت کا اس لئے قصد و ارادہ کرتا ہے کہ اللہ کی رضا وخوشنودی حاصل کرے مگر اس کے ساتھ ہی اس کی نیت میں یہ بات بھی شامل ہوتی ہے کہ اس نیک کام اور عبادت کے ذریعہ اس کو شہرت حاصل ہو جائے۔ یا فلاں غرض پوری ہو جائے جس کا تعلق اللہ تعالیٰ کی رضا وخوشنودی سے نہیں ہوتا اور یہ الگ بات ہے کہ دونوں مقصد برابر ہوں یا ان میں سے ایک غالب ہو جیسا کہ ابتدائے باب میں تفصیل گزر چکی ہے پس معلوم ہوا کہ روزے میں بھی ریا کا عمل دخل ہو سکتا ہے۔
-
وعنه أنه بكى فقيل له ما يبكيك ؟ قال شيء سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول فذكرته فأبكاني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول أتخوف على أمتي الشرك والشهوة الخفية قال قلت يا رسول الله أتشرك أمتك من بعدك ؟ قال نعم أما إنهم لا يعبدون شمسا ولا قمرا ولا حجرا ولا وثنا ولكن يراؤون بأعمالهم . والشهوة الخفية أن يصبح أحدهم صائما فتعرض له شهوة من شهواته فيترك صومه . رواه البيهقي في شعب الإيمان . ( حسن )-
حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ ایک موقع پر وہ رونے لگے پوچھا گیا کہ رونے کا سبب کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ مجھے اس بات نے رلایا ہے کہ جو میں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنی تھی۔ اس وقت مجھے وہ بات یاد آ گئی تو میں رونے پر مجبور ہو گیا، اور وہ بات یہ ہے کہ آپ فرمایا کرتے تھے۔ میں اپنی امت پر شرک (یعنی شرک خفی) اور چھپی خواہشات سے خوف کھاتا ہوں۔ حضرت شداد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ سن کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! کیا آپ کی امت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد شرک میں مبتلا ہو جائے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ ہاں ! یاد رکھو، میری امت کے لوگ سورج کو نہیں پوجیں گے، چاند کو نہیں پوجیں گے ، پتھر کو نہیں پوجیں گے اور کھلم کھلا بت پرستی نہیں کریں گے (یعنی وہ شرک جلی میں تو نہیں مبتلا ہوں گے) لیکن لوگوں کو دکھلانے کے لئے نیک کام کریں گے۔ (اور یہ شرک خفی ہے جس میں وہ مبتلا ہوں گے (اور چھپی خواہش یہ کہ تم میں سے کوئی شخص روزہ کی حالت میں صبح کرے اور پھر اس پر نفسانی خواہشات میں سے کسی خواہش کا غلبہ ہو جائے جیسے کھانے کی خواہش غالب ہو جائے یا جنسی خواہش جاگ اٹھے اور وہ اس خواہش کے غلبہ کی وجہ سے کھانا کھا کر یا ہم بستری کر کے اپنا روزہ توڑ ڈالے جب کہ شرعی طور پر قابل اعتبار کسی ضرورت وحالت کے پیش آنے کے بغیر روزہ توڑنا حرام ہے۔ (احمد، بیہقی) تشریح مذکورہ خواہش کو " چھپی خواہش" اس اعتبار سے فرمایا گیا ہے کہ وہ روزہ کی نیت کے وقت گویا اس کے باطن میں پوشیدہ تھی، یعنی جب اس شخص نے روزہ کی نیت کی تھی اسی وقت اس نے اپنے نفس میں یہ خواہش چھپا رکھی تھی کہ اگر کوئی نفسانی تقاضا آیا تو روزہ توڑ دوں گا۔ واضح رہے کہ طیبی نے تو خواہش سے مراد کھانے وغیرہ کو قرار دیا ہے جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا، لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ چھپی ہوئی خواہش سے مراد نفسانی خواہشات میں خاص طور پر وہ نادرالوجود خواہش ہے ۔ جو ہر وقت پیدا نہ ہوتی ہو بلکہ کسی خاص موقع پر اور کسی خاص وقت پیدا ہو جاتی ہو، اور جب وہ خواہش سر ابھارتی ہو تو اس وقت اس کو پورا کرنے کا داعیہ طبعی طور پر اس طرح غالب آ جاتا ہو کہ اس کی راہ میں کسی شرعی حکم کی مخالفت کا خوف بھی رکاوٹ نہ بناتا ہو، جیسا کہ روزہ کی مثال بیان کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ولا تبطولا اعمالکم۔ لیکن اس خواہش کی تکمیل کے لئے روزہ توڑنے والا یہ لحاظ نہ رکھے کہ میرے اس فعل کی وجہ سے خدا کے حکم کی صریح نافرمانی ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ از قسم عبادت وطاعت جو کام شروع کیا جاتا ہے وہ لازم ہو جاتا ہے اور اس کا پورا کرنا شرعا واجب ہوتا ہے۔
-