TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
نماز کا بیان
دو سجدوں کی وجہ سے سورت حج کی فضیلت
وَعَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اﷲِ فُضِّلَتْ سُوْرَۃُ الْحَجِّ بِاَنَّ فِیْھَا سَجْدَتَیْنِ قَالَ نَعَمْ وَمَنْ لَمْ یَسْجُدْ ھُمَا فَلَا یَقْرَأَھُمَا رَوَاہُ اَبُوْدَاؤدَ وَالتِّرمِذِیُّ وَقَالَ ھٰذَا حَدِیْثٌ لَیْسَ اِسْنَادُہ، بِاالْقَوِیِّ وَفِی الْمَصَابِیْحِ فَلَا یَقْرَأھَا کَمَا فِی شَرْحِ السُنَّۃِ۔ (رواہ ابوداؤد، الترمذی)-
" اور حضرت عقبہ ابن عامر فرماتے ہیں کہ میں نے سرور کو نین صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ ! سورت حج کو اس لیے فضیلت حاصل ہے کہ اس میں دو سجدے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! جو آدمی دونوں سجدے نہ کرے تو وہ ان دونوں سجدوں کی آیتوں کو نہ پڑھے۔" (سنن ابوداؤد جامع ترمذی ) امام ترمذی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی اسناد قوی نہیں ہے اور مصابیح میں مثل شرح السنۃ کے فلا یقراھما (تو وہ دونوں سجدوں کی آیتوں کو نہ پڑھے) کے بجائے فلا یقراھا (تو وہ اس سورت کو نہ پڑھے) کے الفاظ ہیں۔ تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمی سجدے کی ان دونوں آیتوں کو نہ پڑھے تو اسے وہ آیتیں ہی نہ پڑھنی چاہئیں تاکہ وہ ترک واجب کا گنہگار نہ ہو یعنی قرآن کریم پڑھنے والے کے حق میں سجدے کی آیت کی تلاوت کی وجہ سے ایک سجدہ مشروع ہوا ہے اور سجدہ تلاوت کرنا تلاوت کے حقوق سے ہے لہٰذا اگر کوئی آدمی سجدہ تلاوت کو ترک کرنے کے درپے ہو تو اس کے لیے یہی مناسب ہے کہ وہ ان آیتوں ہی کو نہ پڑھے جن کی وجہ سے سجدہ واجب ہو جاتا ہے کیونکہ سجدہ واجب ہے اور اس کو چھوڑنے والا گنہگار ہوتا ہے اس لیے ترک سجدہ سے ترک تلاوت اولیٰ ہے۔ مشکوٰۃ کے ایک دوسرے صحیح نسخہ میں بجائے فلا یقراھما کے فلم یقراھا کے الفاظ ہیں اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے معنی یہ ہوں گے کہ جس نے وہ دونوں سجدے نہ کئے گویا اس نے انہیں پڑھا ہی نہیں یعنی جب اس نے اس آیت کے تقاضے پر عمل نہ کیا تو اس کا پڑھنا نہ پڑھنا دونوں برابر ہے۔ جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ سورت حج کا دوسرا سجدہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک واجب نہیں ہے وہ فرماتے ہیں کہ وہ سجدہ نماز کا ہے کیونکہ وہاں لفظ " ارکعوا " کا مذکور ہونا اس بات کا قرینہ ہے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے آخر میں ھذا حدیث لیس اسنادہ بالقوی کہہ کر اس طرف اشارہ کیا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔
-