TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
نماز کا بیان
دوبارہ نماز پڑھنے کا حکم
وَعَنْ یَزِیْدَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ جِئْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم وَھُوَ فِی الصَّلَاۃِ فَجَلَسْتُ وَلَمْ اَدْخُلْ مَعَھُمْ فِی الصَّلَاۃِ فَلَمَّا انْصَرَفَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم رَآنِیْ جَالِسًا فَقَالَ اَلَمْ تُسْلِمْ یَا یَزِیْدُ قُلْتُ بَلٰی یَا رَسُوْلَ اﷲِ قَدْ اَسْلَمْتُ قَالَ وَمَا مَنَعَکَ اَنْ تَدْخُلَ مَعَ النَّاسِ فِیْ صَلَا تِھِمْ قَالَ اِنِّی کُنْتُ قَدْ صَلَّیْتُ فِی مَنْزِلِیْ اَحْسَبُ اَنْ قَدْ صَلَّیْتُمْ فَقَالَ اِذَا جِئْتَ الصَّلَاۃَ فَوَجَدْتَ النَّاسَ یُصَلُّوْنَ فَصَلِّ مَعَھُمْ وَاِنْ کُنْتَ قَدْ صَلَّیْتَ تَکُنْ لَکَ نَافِلَۃٌ وَھٰذِہٖ مَکْتُوْبَۃٌ۔ (رواہ ابوداؤد)-
" اور حضرت یز ید ابن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں (ایک روز) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت (لوگوں کے ہمراہ) نماز پڑھ رہے تھے میں (ایک طرف) بیٹھ گیا اور ان لوگوں کے ساتھ جماعت میں شامل نہیں ہوا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ کر فارغ ہوئے اور مجھے (ایک طرف) بیٹھے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ " یزید کیا تم مسلمان نہیں ہو کہ نماز نہیں پڑھی ؟ میں نے عرض کیا " ہاں رسول اللہ ! بیشک میں مسلمان ہوں!" آپ نے فرمایا تو پھر لوگوں کے ساتھ نماز میں شریک ہونے سے تمہیں کس چیز نے روک دیا تھا؟ میں نے عرض میں اپنے مکان میں نماز پڑھ چکا تھا اور (اب آتے وقت) یہ خیال تھا کہ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) بھی نماز سے فارغ ہو چکے ہوں گے پھر فرمایا ۔" جب تم نماز کو آؤ اور لوگوں کو (نماز پڑھتے ہوئے) پاؤ تو تم بھی ان کے ہمراہ نماز میں شامل ہو جاؤ اگرچہ تم (پہلے وہ) نماز پڑھ چکے ہو یہ دوسری مرتبہ کی نماز) تمہارے لیے نفل ہو جائے گی اور وہ (پہلی نماز) فرض ادا ہو گی۔" (ابوداؤد)
-
وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ اَنَّ رَجُلًا سَأَلَہ، فَقَالَ اِنِّی اُصَلِّی فِی بَیْتِی ثُمَّ اَدْرِکُ الصَّلَاۃَ فِی الْمَسْجِدِ مَعَ الْاِمَامِ اَفَاُصَلِّی مَعَہ، قَالَ لَہ، نَعَمْ قَالَ الرَّجُلُ اَیَّتَھُمَا اَجْعَلُ صَلَا تِی قَالَ ابْنُ عُمَرَ وَذٰلِکَ اِلَیْکَ اِنَّمَا ذٰلِکَ اِلَی اﷲِ عَزَّوَجَلَّ یَجْعَلُ اَیَّتَھُمَا شَائَ۔ (رواہ مالک)-
" اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ ان سے ایک آدمی نے پوچھا " میں اپنے گھر میں نماز پڑھ لیتا ہوں پھر مسجد میں (ایسے وقت پہنچتا ہوں کہ) لوگ امام کے پیچھے نماز پڑھتے ہوتے ہیں تو کیا میں بھی اس امام کے پیچھے نماز پڑھوں؟ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ " ہاں! پھر اس آدمی نے پوچھا کہ (ان میں سے) اپنی (فرض) نماز کسے قرار دوں ؟ (پہلی یا دوسری کو) حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ( کیا یہ تمہارا کام ہے؟ (یعنی ان میں سے کسی ایک کو فرض نماز مقرر کرنا تمہارا کام نہیں ہے) یہ تو اللہ بزرگ و برتر کے اختیار میں ہے کہ وہ جسے چاہے تمہاری (فرض) نماز قرار دے ۔" (مالک) تشریح یہ حدیث بعض شوافع اور امام غزالی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے اس قول کی تائید کرتی ہے کہ ان دونوں نمازوں میں ایک نماز بلا تعین فرض ادا ہوتی ہے خواہ پہلی نماز ہو یا دوسری۔ لیکن اکثر احادیث سے یہ بات بصراحت معلوم ہوتی ہے کہ ان دونوں میں پہلی نماز فرض ادا ہوتی ہے اور دوسری نماز نفل ہوجاتی ہے اور یہی بات قرین قیاس بھی معلوم ہوتی ہے کیونکہ کوئی آدمی کسی ایسے کام کو جو اس کے لیے ایک وقت میں ایک مرتبہ کرنا ضروری ہو اگر دو مرتبہ کرے تو ظاہر ہے کہ وہ بری الذمہ پہلی مرتبہ ہوتا ہے نہ کہ دوسری مرتبہ، اسی طرح فرض نماز کی ادائیگی پہلی مرتبہ ہوتی ہے اور دوسری مرتبہ کی نماز اس کے حق میں نفل کی صورت میں فضیلت و سعادت کا سرمایہ بن جاتی ہے۔
-