TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
دل کو نرم کرنے والی باتوں کا بیان
دنیا غیر پائیدار متاع ہے
وعن عمرو رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم خطب يوما فقال في خطبته ألا إن الدنيا عرض حاضر يأكل منه البر والفاجر ألا وإن الآحرة أجل صادق ويقضي فيها ملك قادر ألا وإن الخير كله بحذافيره في الجنة ألا وإن الشر كله بحذافيره في النار ألا فاعملوا وأنتم من الله على حذر واعلموا أنكم معروضون على أعمالكم فمن يعمل مثقال ذرة خيرا يره ومن يعمل مثقال ذرة شرا يره . للشافعي-
حضرت عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ میں ارشاد فرمایا اور اس خطبہ میں فرمایا۔" لوگو! خبر دار رہو! دنیا ایک ناپائیدار متاع ہے، اس میں سے نیک بھی کھاتا ہے اور بد بھی (یعنی اللہ تعالیٰ اس دنیا میں ہر شخص کو رزق دیتا ہے خواہ وہ مومن ہو یا کافر اور خواہ مطیع ہو یا فاسق جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ ا یت (وما من دابۃ فی الارض الا علی اللہ رزقھا) خبردار رہو! آخرت واقعی مدت ہے جو سچی یعنی متحقق و ثابت ہے اور اس آخرت میں، ہر قسم کی قدرت رکھنے والا بادشاہ (یعنی اللہ تعالیٰ) فیصلہ صادر فرمائے گا یعنی وہ ثواب و عذاب کے ذریعہ نیک ذریعہ نیک و بد اور مومن و کفر کے درمیان فرق ظاہر کر دے گا خبردار رہو! تمام بھلائیاں اور خوبیاں اپنے انواع و اقسام کے ساتھ جنت میں ہیں، خبردار رہو! تمام برائیاں اور خرابیاں اپنے انواع و اقسام کے ساتھ دوزخ میں ہیں، خبردار رہو! پس تم نیک عمل کرو درآنحالیکہ تم پر خدا کے حساب و عذاب کا خوف طاری ہو (یا یہ کہ نیک عمل کرو اور سارے میں خدا سے ڈرتے رہو، کہ تمہارے وہ نیک عمل قبول ہوتے ہیں یا نہیں اور اس بات کو یاد رکھو کہ اپنے اعمال کے ساتھ خدا کے سامنے پیش ہونا ہے پس جو شخص ذرہ برابر بھی نیک کام کرتا ہے وہ آخرت میں یا دنیا میں اس کی جزاء پائے گا اور جو شخص ذرہ برابر بھی برا کام کرتا ہے وہ اس کی سزا پائے گا " ۔ (شافعی) تشریح انکم معرضون علی اعمالکم کا ترجمہ اگر یہ کیا جائے کہ تم اپنے اعمال کے سامنے کیے جاؤ گے۔ تو اس عبارت کے الٹے معنی مراد ہوں گے کہ قیامت کے دن تمہارے اعمال تمہارے سامنے حاضر کئے جائیں گے۔ ایک ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تم بارگاہ رب العزت میں اپنے اعمال کے مطابق پیش کیے جاؤ گے۔ لیکن زیادہ صحیح اور زیادہ واضح معنی کہ جو اوپر ترجمہ میں نقل کیے گئے ہیں یہی ہیں کہ تم اپنے اعمال کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کیے جاؤ گے اور اپنے ان اعمال کے مطابق جزاء یا سزا پاؤ گے جیسا کہ جب کوئی لشکر میدان جنگ سے واپس آتا ہے تو وہ اپنے فرائض کی انجام دہی کی کاروائی کے ساتھ اپنے امیر کے سامنے پیش ہوتا ہے اور وہ امیر اس لشکر کے ہر فرد کے امور مفوضہ کی انجام دہی کو دیکھتا ہے اور اس کے مطابق ہر سپاہی کو انعام و سزا دیتا ہے۔
-
وعن شداد رضي الله عنه قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول يا أيها الناس إن الدنيا عرض حاضر يأكل منها البر والفاجر وإن الاخرة وعد صادق يحكم فيها ملك عادل قادر يحق فيها الحق ويبطل الباطل كونوا من أبناء الآخرة ولا تكونوا من أبناء الدنيا فإن كل أم يتبعها ولدها-
حضرت شداد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا۔" لوگو ! بلاشبہ یہ دنیا ایک ناپائیدار متاع ہے جس میں نیک و بد (یعنی مومن و کافر) دونوں کھاتے ہیں اور بلاشبہ آخرت ایک سچا اور یقینی طور پر پورا ہونے والا وعدہ ہے اس (آخرت ) میں ہر طرح کی قدرت رکھنے والا اور عدل و انصاف کرنے والا بادشاہ (اپنے حلم و فیصلہ کے ذریعہ) حق کو ثابت رکھے گا اور باطل کو مٹا دے گا (یعنی ثواب و عذاب کے ذریعہ اہل حق اور اہل باطل کو ایک دوسرے سے متمیز اور جدا کر دے گا) تم آخرت کے بیٹے بنو اور دنیا کے بیٹوں میں اپنا شمار نہ کراؤ، کیونکہ ہر ماں کا بیٹا اسی (ماں) کے تابع ہوتا ہے" تشریح حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم دنیا کے بیٹے بنو گے یعنی دنیا کی طلب گاری و محبت میں منہمک و مستغرق رہو گے تو دوزخ میں جاؤ گے کیونکہ باطل دنیا کا ٹھکانا دوزخ ہے اور اگر تم آخرت کے بیٹے بنو گے یعنی طلب آخرت اور اخروی امور کی انجام دہی میں مہمک و مستغرق رہو گے تو جنت میں جاؤ گے کیونکہ آخرت حقہ کی جگہ جنت ہے۔ یہ ملا علی قاری رحمہ اللہ کے منقولات کا مفہوم ہے، اور حضرت شیخ عبدالحق نے حدیث کے اختتام پر یہ لکھا ہے کہ پس جو شخص آخرت کا بیٹا ہوگا وہ آخرت کی اتباع کرے گا اور اس کے مطابق عمل کرے گا اور جو شخص دنیا کا بیٹا ہوگا وہ دنیا کی پیروی کرے گا اور اسی کے لئے کام کرے گا۔
-