TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
دل کو نرم کرنے والی باتوں کا بیان
دنیا سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے رغبتی
وعنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم عرض علي ربي ليجعل لي يطحاء مكة ذهبا فقلت لا يارب ولكن أشبع يوما وأجوع يوما فإذا جعت تضرعت إليك وذكرتك وإذا شبعت حمدتك وشكرتك . رواه أحمد والترمذي-
حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " میرے رب نے میرے سامنے اس امر کو ظاہر کیا کہ وہ میرے لئے مکہ کے سنگریزوں کو سونا بنادے، لیکن میں نے عرض کیا کہ میرے پروردگار، مجھ کو اس چیز کی قطعا خواہش نہیں ہے میں تو بس یہ چاہتا ہوں کہ ایک روز پیٹ بھر کر کھاؤں اور ایک روز بھوکا رہوں کہ جب میں بھوکا رہوں تو تیرے حضور گڑ گڑاؤں، اپنی عاجزی بیان کروں اور تجھے یاد کروں اور جب میں شکم سیر ہوں تو تیری حمدوتعریف کروں اور تیر شکر ادا کروں" ۔ (احمد، ترمذی) تشریح : آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے اللہ تعالیٰ کی مذکورہ پیش کش یا تو حسی وظاہری طور پر تھی یا معنوی یعنی باطنی طور پر اور یہ دوسری مراد زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے اس صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں مجھ سے مشورہ فرمایا اور مجھے اختیار دیا کہ چاہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دنیا میں وسعت وفراخی اور یہاں کے مال وزر کی فراوانی کو پسند کریں اور چاہے دنیا سے بے رغبتی اختیار کر کے توشہ آخرت کی فکر میں لگے رہیے اور وہاں کے حساب وعذاب سے نجات کی راہ اختیار کر لیجئے۔، لہٰذا میں نے دنیا کو ٹھکرا دیا اور آخرت کو پسند کرلیا۔ " بطحاء" اور " ابطح" اس کشادہ نالہ کو کہتے ہیں جس سے پانی گزرتا ہے اور جس میں ریب اور سنگریزے جمع ہوجاتے ہیں ۔ مکہ کے سنگریزوں کو سونا بنانے سے مراد یہ تھی کہ مکہ کے اطراف میں جو نالے اور پانی کے نکاس کے راستے ہیں ان سب کو سونے سے بھر دیا جائے یا یہ کہ ان نالوں میں جو سنگریزے ہیں ان کو سونے میں تبدیل کر دیا جائے، اور یہ دوسری مراد زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے کیونکہ ایک دوسری حدیث میں یوں فرمایا گیا ہے کہ (اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چاہیں تو اللہ تعالیٰ) مکہ کے پہاڑوں کو سونے میں تبدیل کردے۔ حدیث کے آخری جملوں کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے میرے لئے دنیاوی وسعت وفراخی اور خوشحالی کی پیش کش کے باوجود میں نے دنیا کے مال وزر کو ٹھکرادیا اور فقر کو اختیار کر لیا کہ اگر ایک روز شکم سیر رہوں تو دوسرے روز بھوکا رہو اور اس طرح صبر اور شکر دونوں کی فضیلت پاؤں۔ اس ارشاد گرامی کے ذریعے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گویا امت کو تعلیم وتلقین فرمائی کہ اگرچہ دولتمندی بھی خدا کی بہت بڑی نعمت ہے لیکن اس کی آفات بھی بہت ہیں اور انسان دولتمندی کی حالت میں زیادہ گمراہ ہوتا ہے لہٰذا فقروقناعت کو اختیار کرنا زیادہ موزوں ہے اس لئے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ غنا یعنی دولتمندی کے مقابلہ میں فقر افضل ہے۔
-