دنیاوی تفکرات اور غم روزگار کی پریشانیوں سے نجات حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ

وعنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن الله يقول ابن آدم تفرغ لعبادتي أملأ صدرك غنى وأسد فقرك وإن لا تفعل ملأت يدك شغلا ولم أسد فقرك . رواه أحمد وابن ماجه-
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ " اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے ابن آدم! میری عبادت کے لئے تو اپنے دل کو اچھی طرح مطمئن وفارغ کرلے، میں تیرے سینے کو استغناء سے بھردوں گا (یعنی تیرے دل کو علوم ومعارف کی دولت سے مالا مال کردوں گا، (جس کے سبب تو غیر اللہ سے بے نیاز ومستغنی ہوجائے گا) اور تیرے لئے فقروافلاس کی راہ کو بند کردوں گا۔ اگر تونے ایسا نہ کیا (یعنی میں نے جو یہ حکم دیا ہے کہ دنیا سے بے پروائی اختیار کر کے اپنے رب کی عبادت کی طرف متوجہ رہ، کہ یہ چیز دنیا وآخرت دونوں جگہ فائدہ پہنچاتی ہے، اگر تونے اس حکم سے اعراض کی اور اپنے قوائے فکروعمل کو میری عبادت میں مشغول رکھنے کے بجائے صرف دنیاوی امور اور اپنے نفس کی خواہشات کی تکمیل میں مشغول ومنہمک رکھا) تو میں تیرے ہاتھوں اور دیگر قوائے عمل کو طرح طرح کے تفکرات اور مشاغل سے بھردوں گا اور تیرے فقر واحتیاج کو دور نہیں کروں گا " (احمد وابن ماجہ) تشریح : مطلب یہ ہے کہ فقر وافلاس اور تفکرات وآلام کے بادل محض اس طور سے نہیں پوچھتے کہ اپنے تمام اوقات کو طلب معاش اور حصول مال کی جدوجہد اور محنت ومشقت میں صرف کرے اور ہر لمحہ دنیاوی امور ومشاغل میں سرگرداں رہے، بلکہ واقعہ یہ ہے کہ اس کی صورت میں تمام پریشانیاں اور سرگردانیاں اپنی جگہ باقی رہتی ہیں جب کہ عبادت خداوندی کے لئے اپنے قوائے فکر وعمل اور اوقات کو دنیاوی فکرات مشاگل سے فارغ رکھنا کشائش حالات کا ضامن بھی ہے اور غیر اللہ سے استغناء وبے نیازی کے حصول کا باعث بھی، اس بات بات کو دوسرے لفظوں میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ خدا کی طرف متوجہ ہونے کے بجائے ہر وقت غم روزگار کی الجھنوں کو اپنے اوپر مسلط رکھنے اور طلب زر کی راہ میں ناروا محنت ومشقت کی صعوبتوں اور تفکرات میں پھنس کر اپنے آپ کو تعب وغم میں مبتلا رکھنے کی وجہ سے اس مقدار سے زائدہ تو کچھ حاصل ہونے سے رہا، جو ازل سے قسمت میں لکھ دی گئی ہے البتہ الٹا اثر یہ ضرور ہوگا کہ عبادت خداوندی کو ترک کرنے کے سبب قلبی استغناء کی دولت سے بھی محروم ہوجائے گا۔
-