دجال کا حلیہ

وعن عبد الله بن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال رأيتني الليلة عند الكعبة فرأيت رجلا آدم كأحسن ما أنت راء من أدم الرجال له لمة كأحسن ما أنت راء من اللمم قد رجلها فهي تقطر ماء متكأ على عواتق رجلين يطوف بالبيت فسألت من هذا ؟ فقالوا هذا المسيح بن مريم قال ثم إذا أنا برجل جعد قطط أعور العين اليمنى كأن عينة عنبة طافية كأشبه من رأيت من الناس بابن قطن واضعا يديه على منكبي رجلين يطوف بالبيت فسألت من هذا ؟ فقالوا هذا المسيح الدجال . متفق عليه . وفي رواية قال في الدجال رجل أحمر جسيم جعد الرأس أعور عين اليمنى أقرب الناس به شبها ابن قطن . وذكر حديث أبي هريرة لا تقوم الساعة حتى تطلع الشمس من مغربها في باب الملاحم . وسنذكر حديث ابن عمر قام رسول الله صلى الله عليه وسلم في الناس في باب قصة ابن الصياد إن شاء الله تعالى .-
" اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ( ایک دن ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " میں نے آج کی رات اپنے آپ کو (خواب میں یا کشف کی حالت میں ) کعبہ کے پاس دیکھا، وہاں مجھ کو ایک ایسا گندم گوں شخص نظر آیا جو کسی ایسے آدمی کی طرح تھا جس کو تم گندمی رنگ کا سب سے بہتر اور خوبصورت دیکھتے ہو ، اس کے ( سر پر ) بہت بال تھے جو کاندھوں تک لٹکے ہوئے تھے اور بالوں کے اعتبار سے بھی وہ کسی ایسے شخص کے مشابہ تھا جس کو تم اس قسم کے بال رکھنے والوں میں سے سب سے خوبصورت دیکھتے ہو، اس کے بالوں میں کنگھی کی گئی تھے اور بالوں سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے وہ شخص دو آدمیوں کے کاندھوں پر ہاتھ رکھے خانہ کعبہ کا طواف کر رہا تھا ! میں نے ( اس شخص کو دیکھ کر طواف کرنے والوں سے ) پوچھا کہ یہ کون ہے ۔ انہوں نے جواب دیا کہ یہ مسیح ابن مریم ہیں ! اسی کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر اچانک میری نظر سے ایک شخص گزرا جس کے بال گھونگریالے اور بہت کھڑے تھے ، وہ داہنی آنکھ سے کانا تھا ، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے اس کی آنکھ انگور کا پھولا ہوا دانہ یا بے نور ہے ، جن لوگوں کو میں نے دیکھا ہے ان میں سے وہ ابن قطن کے بہت مشابہ تھا ، وہ شخص بھی دو آدمیوں کے کاندھوں پر ہاتھ رکھے خانہ کعبہ کا طواف کر رہا تھا ، میں نے اس کے بارے میں بھی پوچھا کہ یہ کون ہے ؟ تو لوگوں نے جواب دیا کہ یہ مسیح دجال ہے " بخاری ومسلم ) ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کے بارے میں فرمایا کہ " وہ ایک شخص ہے جس کی آنکھیں سرخ ہیں ، سر کے بال گھونگریالے ہیں ، داہنی آنکھ سے کانا ہے ، مشابہت کے اعتبار سے لوگوں میں ابن قطن اس کے بہت قریب ہے ۔ " اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث لا تقوم الساعۃ حتی تطلع الشمس من غربہا الخ باب الملاحم میں نقل کی جا چکی ہے نیز حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس روایت قام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی الناس ۔۔۔ الخ کو انشاء اللہ ہم ابن صیاد کے قصہ کے باب میں نقل کریں گے ۔ تشریح " بالوں سے پانی ٹپک رہے تھے ۔ " میں پانی سے مراد یا تو وہ پانی ہے جو نہانے کے بعد بالوں میں لگا رہتا ہے اور کنگھی کرنے کے بعد بالوں سے ٹپکنے لگتا ہے اور وہ پانی بھی مراد ہو سکتا ہے جس میں کنگھی کو بھگو کر بال سنوراتے ہیں ، یا پانی کے قطرے ٹپکنے سے مراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی انتہائی پاکیزگی ولطافت اور ترو تازگی کو کنایۃ بیان کرنا ہے ۔ " جیسے اس کی آنکھ انگور کا پھولا ہوا دانا ہے ۔ " کے بارے میں قاضی عیاض نے یہ لکھا ہے کہ دجال کی داہنی آنکھ تو بالکل سلپٹ یعنی ہموار ہوگی ( کہ اس جگہ آنکھ کا نام ونشان بھی نہیں ہوگا ) اور بائیں آنکھ موجود تو ہوگی لیکن اس میں بھی پھولا ہوا ٹینٹ ہوگا ۔ " ابن قطن " سے مراد عبد العزی ابن قطن یہودی ہے جس کے بارے میں پیچھے بیان ہو چکا ہے !لفظ کا شبہ " میں کاف زائد ہے جو اظہار مبالغہ کے لئے استعمال ہوا ہے ! دجال کو ابن قطن کے ساتھ تشبیہ دینے کی وجہ یہ ہے کہ شاید ابن قطن کا جسمانی حلیہ کچھ اس طرح کا رہا ہوگا جیسا کہ دجال کا ہوگا یا اس اعتبار سے تشبیہ دی گئی ہے کہ اس کی آنکھ بھی ٹینٹ یعنی پھلی تھی ۔ دجال جن دو آدمیوں کے کاندھوں پر ہاتھ رکھے طواف کرتا نظر آیا تھا بظاہر ان سے مراد وہ دو شخص ہیں جو اس (دجال ) کے رفیق ومددگار ہوں گے جیسا کہ ان دو شخصوں سے مراد کہ جن کے کاندھے پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہاتھ رکھے ہوئے طواف کرتے ہوئے نظر آئے تھے ، وہ دو شخص ہیں جو حق کے راستہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معین ومددگار ہوں گے اور شاید وہ دونوں حضرات خضر علیہ السلام اور حضرت مہدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں ! اس موقع پر اشکال واقع ہوتا ہے کہ دجال کافر ہے ، اس کو طواف کی حالت میں دکھایا جانا کیا معنی رکھتا ہے ؟ اس کا جواب علماء کرام نے یہ دیا ہے کہ مذکورہ واقعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مکاشفات میں سے ہے، جس کا تعلق خواب سے ہے اور اس کی تعبیر یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس خواب میں گویا یہ دیکھایا گیا کہ ایک وہ دن آئے گا جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام دین اور مرکز دین کے اردگرد رہیں گے تاکہ دین کو قائم کریں اور فتنہ و فساد سے اس کی حفاظت کریں اور دجال بھی دین اور مرکز دین پر منڈلاتا پھرے گا تاکہ گھات لگا کر دین کو نقصان پہنچائے اور فتنہ وفساد پھیلانے میں کامیاب ہو جائے بعض حضرات نے ایک جواب یہ دیا ہے کہ مکہ مکرمہ پر اسلام کا غلبہ ہونے اور مشرکوں کو مسجد حرام کے قریب جانے کی مخالفت نافذ ہونے سے پہلے بہر حال کافر ومشرک بھی خانہ کعبہ کا طواف کیا کرتے تھے، پس اگر دجال بھی طواف کرتا ہو تو اس میں اشکال کی بات کیا ہے ایک یہ بات بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مکاشفہ یا خواب سے ، موجودات کی دنیا میں کسی کافر کا طواف کرنا ہر گز لازم نہیں آتا ، جب کہ کفار اور مشرکین کے لئے خانہ کعبہ کے طواف کی ممانعت کا تعلق موجودات کی اس دنیا سے ہے ۔
-
وعن عبادة بن الصامت عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال إني حدثتكم عن الدجال حتى خشيت أن لا تعقلوا . إن المسيح الدجال قصير أفحج جعد أعور مطموس العين ليست بناتئة ولا حجراء فإن ألبس عليكم فاعلموا أن ربكم ليس بأعور رواه أبو داود .-
" اور حضرت عبادہ بن صامت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ " میں نے تم لوگوں سے دجال کا حال اس اندیشہ سے ( بار بار ) بیان کیا ہے کہ کہیں تمہاری سمجھ میں نہ آئے ، ( تو اچھی طرح سمجھ لو کہ ) دجال پستہ قد ہے ، پھڈا ہے ، اس کے بال مڑے ہوئے ہیں ( ایک آنکھ سے ) کانا ہے اور ( دوسری ) آنکھ سلپٹ یعنی بالکل مٹی ہوئی ہے ، اس کی آنکھ نہ ابھری ہوئی ہے اور نہ اندر کو دھنسی ہوئی ۔ اس کے بعد بھی اگر تم شبہ میں پڑجاؤ ( یعنی میں نے دجال کا جو حلیہ بیان کیا ہے وہ بھول جانے کے سبب اور اس کے ما فوق الفطرت کے کارناموں کی وجہ سے اس کا دعوی الوہیت اگر تمہیں کسی درجہ میں شبہ میں مبتلا بھی کر دیں تو ) اتنی بات یاد رکھنا کہ تمہارا پروردگار کانا نہیں ہے ۔ " ( ابوداؤد) تشریح : " کہ کہیں تمہاری سمجھ میں نہ آئے ۔ " کا مطلب یہ ہے کہ میں جو بار بار اور مختلف انداز میں دجال کا حال تمہارے سامنے بیان کرتا ہوں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ دجال کی حیثیت وحقیقت تمہارے ذہن میں میں نے بتائی ہیں یا تمہارا دل ودماغ اس کی حقیقت سے نا آشنا رہے ۔ ! اور طیبی نے کہا ہے کہ انی حدثتکم عن الدجال حتی حشیت الخ میں لفظ " حتی " دراصل " حدثتکم " کی غایت ہے ، جس کا مطلب یہ ہے کہ میں نے دجال کے سلسلہ میں اتنی زیادہ اور اس قدر متفرق طور پر احادیث بیان کی ہیں کہ مجھے یہ خدشہ ہوگیا ہے کہ کہیں تم التباس کا شکار نہ ہو جاؤ اور تمہارا ذہن اس طرح نہ الجھ جائے کہ دجال کی حیثیت وحقیقت اور اس کے احوال کی تفصیل تمہارے فہم وادراک کی گرفت سے باہر ہوجائے ، پس تم پر لازم ہے کہ دجال کے احوال کو خوب اچھی طرح سمجھ لو اور اپنے آپ کو اس بارے میں شکوک وشہبات اور التباس سے بچاؤ ۔ دجال پستہ قد ہے ، یہ بات بظاہر اس روایت کے مخالف ہے جس میں دجال کو سب سے بڑے ڈیل ڈول والا بتایا گیا ہے لیکن اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو ان دونوں باتوں کے درمیان کوئی تضاد نہیں ہے ، کیونکہ پستہ قد ہونا بڑے ڈیل ڈول والا ہونے کے منافی نہیں ہے ، چنانچہ ہو سکتا ہے کہ دجال ٹھگنے قد کا بھی ہو اور پٹیل بھاری جسم والا بھی، اور یہ بات اس کے اتنا بڑا فتنہ پرواز ہونے کے اعتبار سے اس کی فطرت اور اس کی حقیقت کے مطابق بھی ہے ! اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے خروج کے وقت اس کو متغیر کر دے یعنی اس وقت تو وہ بہت بڑے ڈیل ڈول والا ہے لیکن جب اس کے ظاہر ہونے کا وقت آئے گا او ٹھگنا ہو جائے گا ۔ " پھڈا " افحج " کا ترجمہ ہے ، یعنی ایسا شخص یا جانور جس کے چلنے کا یہ غیر معمولی انداز ہو کہ پاؤں کے سرے یعنی پنجے تو زمین پر قریب قریب پڑیں مگر دونوں ایڑیاں ، پھیلی ہوئی پنڈلیوں کے ساتھ ایک دوسرے سے دور پڑیں اور نہایہ میں یہ لکھا ہے کہ " افحج " کے معنی ہیں دونوں رانوں کے درمیان معمول سے زیادہ فاصلہ ہونا ۔ " اس کی آنکھ نہ ابھری ہوئی ہے اور نہ اندر کودھنسی ہوئی ۔ " یہ جملہ منفیہ موکدہ ہے جس کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ اس کی ایک آنکھ بالکل مٹی ہوئی ہوگی، پس یہ اس بات کے منافی نہیں ہے کہ اس کی دوسری آنکھ انگور کے دانہ کی طرح پھولی ہوئی ہوگی اس کی وضاحت پیچھے کی جا چکی ہے ۔ " اتنی بات یاد رکھنا کہ تمہارا پرودگار کانا نہیں ہے ۔ " یعنی ایک مسلمان ومؤمن کی حیثیت سے تمہارے اوپرصفات ربوبیت میں سے جس چیز کا سب سے پہلے پہچاننا واجب ہے وہ یہ ہے کہ وہ ( تمہارا رب ) حدوث وعیوب اور خصوصا ظاہری نقائص سے بالکل پاک ہے پس اگر یہ بنیادی عقیدہ تمہارے دل ودماغ میں مستحضر رہے گا تو تم دجال کو کانا دیکھ کر فورا سمجھ جاؤ گے کہ یہ عیب دار ذات ہر گز خدا نہیں ہو سکتی خواہ وہ اپنی خدائی کے اظہار کے لئے تمہیں شک وشبہ میں ڈالنے والے کتنے ہی مافوق الفطرت کارنامے کیوں نہ دکھائے ۔
-