TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
پینے کی چیزوں کا بیان
دائیں طرف سے دینا شروع کرو
وعن أنس قال : حلبت لرسول الله صلى الله عليه وسلم شاة داجن وشيب لبنها بماء من البئر التي في دار أنس فأعطي رسول الله صلى الله عليه وسلم القدح فشرب وعلى يساره أبو بكر وعن يمينه أعرابي فقال عمر : أعط أبا بكر يا رسول الله فأعطى الأعرابي الذي عن يمينه ثم قال : " الأيمن فالأيمن وفي رواية : " الأيمنون الأيمنون ألا فيمنوا "-
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک دن ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم (جب ہمارے گھر تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ) کے لئے گھر کی پلی ہوئی ایک بکری کا دودھ دوہا گیا اور اس دودھ کو اس کنویں کے پانی میں ملایا گیا جو انس رضی اللہ عنہ کے گھر میں تھا، پھر یہ دودھ کا پیالہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا گیا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ دودھ پیا ۔ (اس وقت ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں طرف حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بیٹھے تھے، اور دائیں طرف ایک دیہاتی بیٹھا تھا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ " یا رسول اللہ ! یہ بچا ہوا دودھ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو دیجئے " لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دیہاتی کو عنایت فرمایا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دائیں طرف بیٹھا تھا پھر فرمایا کہ " دایاں مقدم ہے اور پھر دایاں ۔" اور ایک روایت میں یہ ہے کہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر یہ فرمایا کہ ) یاد رکھو! دائیں طرف کے زیادہ حق دار ہیں دائیں طرف کے زیادہ حق دار ہیں لہٰذا دائیں طرف والوں کو دیا کرو یعنی جب یہ معلوم ہو گیا کہ دائیں طرف والے زیادہ حق دار ہیں تو تم بھی دائیں طرف والوں کی رعایت ملحوظ رکھا کرو کہ دینے میں انہی سے ابتداء کرو۔" (بخاری ومسلم ) تشریح جو انس رضی اللہ عنہ کے گھر میں تھا " ظاہری اسلوب کا تقاضا تو یہ تھا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ یہاں یہ کہتے کہ " جو ہمارے گھر میں تھا " کیوں کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے جس واقعہ کا ذکر کیا ہے وہ انہی کے گھر کا ہے، جس بکری کا دودھ دوہا گیا تھا وہ بھی حضرت انس رضی اللہ عنہ کے گھر میں تھی اور وہ کنواں بھی ان ہی کے گھر میں تھا اور خود حضرت انس رضی اللہ عنہ ہی اس واقعہ کو بیان کرنے والے ہیں، لیکن انہوں نے ظاہری اسلوب کے تقاضے کے برخلاف یہ کہہ کر کہ " جو انس رضی اللہ عنہ کے گھر میں تھا " گویا تفنن عبارت کے اسلوب کو اختیار کیا جس کو علم عربیت میں وضع مظہر موضع مضمر " کہتے ہیں ۔ دونوں لفظ ایمن نون کے پیش کے ساتھ ہیں جن کا ترجمہ یہی ہے کہ " دایاں مقدم ہے اور پھر دایاں " یعنی سب سے پہلے اس شخص کو دیا جائے جو داہنی طرف ہو اور پھر اس شخص کو دیا جائے جو پہلے شخص کے برابر میں اسی طرف ہو، اسی ترتیب سے دیتا چلا جائے، یہاں تک کہ سب سے آخر میں اس شخص کا نمبر آئے جو بائیں طرف ہے ۔ ایک روایت میں یہ دونوں لفظ ایمن نون کے زبر کے ساتھ ہیں اس صورت میں ترجمہ یہ ہو گا کہ میں دائیں طرف والے کو دوں گا پھر دائیں طرف والے کو، لیکن نون کے پیش روایت کی تائید مذکورہ بالا دوسری روایت الا یمنون الا یمنون سے بھی ہوتی ہے ۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی چیز کے دینے میں اپنی داہنی طرف کی رعایت ملحوظ رکھنا مستحب ہے یعنی اگرچہ داہنی طرف کا شخص بائیں طرف کے شخص کی بہ نسبت کم رتبہ بھی ہو تو تب بھی پہلے اسی کو دیا جائے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دیہاتی کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پر اسی لئے مقدم رکھا کہ وہ دائیں طرف تھا ، نیز یہ حدیث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کمال عدل و انصاف اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصف حق شناسی پر بھی دلالت کرتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے افضل اور مقرب ترین ہونے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سفارش کے باوجود دیہاتی کے حق کو نظر انداز نہیں کیا جہاں تک حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عرض کرنے کا تعلق ہے تو انہوں نے محض یاد دہانی کے لئے عرض کیا تھا کہ شاید آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو وہاں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی موجودگی یاد نہ رہی ہو ۔
-
وعن سهل بن سعد قال : أتي النبي صلى الله عليه وسلم بقدح فشرب منه وعن يمينه غلام أصغر القوم والأشياخ عن يساره فقال : " يا غلام أتأذن أن أعطيه الأشياخ ؟ " فقال : ما كنت لأوثر بفضل منك أحدا يا رسول الله فأعطاه إياه وحديث أبي قتادة سنذكر في " باب المعجزات " إن شاء الله تعالى-
اور حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک مرتبہ ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں (دودھ یا پانی ) کا پیالہ لایا گیا جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں طرف ایک نوعمر تھا جو (حاضرین مجلس میں ) سب سے چھوٹا تھا، (یعنی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ ) اور جو بڑے بوڑھے لوگ تھے وہ بائیں طرف تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " اے لڑکے کیا تم اجازت دیتے ہو کہ میں اس (باقی ماندہ دودھ یا پانی ) کو ان بوڑھوں کو دے دوں؟ " اس نوعمر نے کہا کہ " (نہیں ) یا رسول اللہ ! میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بچے ہوئے (دودھ یا پانی ) کو دینے کے سلسلے میں اپنے اوپر کسی کو ترجیح نہیں دے سکتا۔" چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بچے ہوئے ( دودھ یا پانی ) کو اسی نوعمر کو دے دیا ۔" (بخاری ومسلم ) اور حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کی روایت (جس کو صاحب مصابیح نے یہاں نقل کیا تھا ) ہم انشاء اللہ باب المعجزات میں نقل کریں گے ۔ تشریح اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر مجلس میں ایک سے زائد لوگ موجود ہوں اور ان کو کوئی چیز دینی ہو تو دائیں طرف کا شخص اس بات کا اولی اور زیادہ حق دار ہے کہ دینے کی ابتداء اسی سے کی جائے ہاں اگر کسی مصلحت کا یہ تقاضا ہو کہ پہلے اس شخص کو دیا جائے جو بائیں طرف ہے تو دائیں طرف والے سے اس کی اجازت لینی چاہئے، اگر وہ اجازت دے دے تب بائیں طرف والے کو دیا جائے ۔ رہی یہ بات کہ اس موقعے پر تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اجازت مانگی لیکن پچھلی حدیث میں جو واقعہ ذکر کیا گیا ہے اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیہاتی سے اجازت نہیں مانگی تو اس کی وجہ یہ تھی کہ اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں طرف جو بڑی عمر والے لوگ بیٹھے تھے ان کا تعلق قریش سے تھا اور ابن عباس رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابتدار تھے، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوچا کہ اگر ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اجازت لے کر ان لوگوں کو دے جائے تو ابن عباس رضی اللہ عنہ کو کوئی ناگواری بھی نہ ہو گی اور ان بڑی عمر والے لوگوں کی تالیف قلوب بھی ہو جائے گی جب کہ اس موقعہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں طرف حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے جن کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پختہ تعلق تھا، اور محبت و اخلاص راسخ تھا ان کی تالیف قلب کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا، دوسری طرف اس دیہاتی کے بارے میں بھی یہ خیال تھا کہ اگر اس سے اجازت لے کر ابوبکر رضی اللہ عنہ کو دیا گیا تو شاید وہ اس بات کو اپنی حق تلفی سمجھتے ہوئے کسی وحشت و بیگانگی کا شکار ہو جائے، کیونکہ وہ نیا نیا حلقہ بگوش اسلام ہوا تھا گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تالیف قلب اسی میں دیکھی کہ اس سے اجازت نہ لی جائے ۔ فقہاء اس بات پر اتفاق رکھتے ہیں کہ طاعات (یعنی امور اور عبادات ) میں ایثار جائز نہیں ہے ۔ یہ تو فقہاء کا قول ہے لیکن اس مسئلہ کا زیادہ واضح پہلو یہ ہے کہ اگر ایثار واجبات میں ہو تو حرام ہے، اور اگر فضائل و مستحبات میں ہو تو مکروہ ہے ، اس کو اور واضح طور پر یوں سمجھا جا سکتا ہے، مثلاً ایک شخص کے پاس صرف اتنا پانی ہے جس سے وہ خود وضو کر سکے لیکن اس نے وہ پانی کسی دوسرے شخص کو دے دیا، اور خود تیمم کر کے نماز پڑھی یا اس کے پاس محض اتنا کپڑا تھا جو اس کی ستر پوشی کے بقدر تھا لیکن اس نے وہ کپڑا کسی دوسرے شخص کو دے دیا اور خود ننگے بدن نماز پڑھی، اسی طرح کا ایثار جائز نہیں ہے بلکہ حرام ہے ، یہ تو واجبات میں ایثار کی صورت تھی، فضائل و مستحبات میں ایثار کی صورت یہ ہے کہ مثلاً ایک شخص باجماعت نماز پڑھنے کے لئے پہلی صف میں امام کے قریب بیٹھا تھا لیکن اس نے وہ جگہ کسی دوسرے شخص کو دے دی اور خود پچھلی صف میں آ کر نماز پڑھی اس طرح کا ایثار اچھا نہیں ہے بلکہ مکروہ ہے، طاعات کے برعکس دنیاوی امور میں ایثار ایک محمود و مستحسن عمل ہے، جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ بعض صوفیاء کے بارے میں یہ منقول ہے کہ انہوں نے بعض مواقع پر طاعات میں ایثار کی صورتیں اختیار کیں تو غالباً انہوں نے ایسا غلبہ حال کے سبب کیا ہو گا ۔
-