خیرخواہی کی اہمیت وفضیلت

وعن تميم الداري أن النبي صلى الله عليه وسلم قال الدين النصيحة ثلاثا . قلنا لمن ؟ قال لله ولكتابه ولرسوله ولأئمة المسلمين وعامتهم . رواه مسلم . ( متفق عليه )-
" اور حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا دین نصیحت ہے (یعنی نصیحت اور خیر خواہی اعمال دین میں سے افضل ترین عمل ہے یا نصیحت اور خیر خواہی دین کا ایک مہتم بالشان نصب العین ہے) حضور نے یہ بات تین بار فرمائی ہم نے یعنی صحابہ نے پوچھا کہ یہ نصیحت اور خیر خواہی کسی کے حق میں کرنی چاہیے؟ حضور نے فرمایا کہ خدا کے لیے، خدا کی کتاب کے لیے ، مسلمانوں کے اماموں یعنی اسلامی حکومت کے سربراہوں اور علماء کے لیے اور تمام مسلمانوں کے لیے ۔ مسلم۔ تشریح خدا کے حق میں خیر خواہی کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی ذات و صفات پر ایمان لائے اس کی واحدانیت و حاکمیت کا اعتقاد رکھے اس کی صفات و کا رسازی میں کسی غیر کو شریک کرنے سے اجتناب کرے اس کی عبادت اخلاص نیت کے ساتھ کرے اور اس کے اوامر و نواہی کی اطاعت و فرمانبرداری کرے اس کی نعمتوں کا اقرار و اعتراف کرے اور اس کا شکر ادا کرے اور اس کے نیک بندوں سے محبت کرے اور بدکار سرکش بندوں سے نفرت کرے۔خدا کی کتاب کے حق میں خیر خواہی کا مطلب یہ ہے کہ اس بات کا عقیدہ رکھے کہ یہ کتاب اللہ کی طرف سے نازل ہوئی ہے اس میں جو کچھ لکھا ہے اس پر ہر حالت میں عمل کرے تجوید و ترتیل اور غور و فکر کے ساتھ اس کی تلاوت کرے اور اس کی تعظیم و احترام میں کوئی کوتاہی نہ کرے۔خدا کے رسول کے حق میں خیر خواہی کا مطلب یہ ہے کہ اس بات کو سچے دل سے تصدیق کر لے کہ وہ رسول اللہ اور اس کے پیغمبر ہیں ان کی نبوت پر ایمان لائے وہ اللہ کی طرف سے جو پیغام پہنچائیں اور جو احکام دین ان کو قبول کرے اور ان کی اطاعت و فرمانبرداری کرے ان کو اپنی جان اپنی اولاد اپنے ماں باپ اور تمام لوگوں سے زیادہ عزیز رکھے ان کے اہل بیت اور ان کے صحابہ سے محبت رکھے اور ان کی سنت پر عمل کرے۔ " مسلمانوں کے اماموں کے حق میں خیر خواہی" یہ ہے کہ جو شخص اسلامی حکومت کی سربراہی کر رہا ہو اس کے ساتھ وفاداری کو قائم رکھے، احکام و قوانین کی بیجا طور پر خلاف ورزی کر کے ان کے نظم حکومت میں خلل و ابتری پیدا نہ کرے اچھی باتوں میں ان کی پیروی کرے اور بری باتوں میں ان کی اطاعت سے اجتناب کرے اگر وہ اسلام اور اپنے عوام کے حقوق کی ادائیگی میں غفلت و کوتاہی کا شکار ہوں تو ان کو مناسب اور جائز طریقوں سے متنبہ کرے اور ان کی خلاف بغاوت کا علم بلند نہ کرے اگرچہ وہ کوئی ظلم ہی کیوں نہ کریں، علماء کو جو مسلمانوں کے علمی و دینی رہنما ہوتے ہیں ان کی عزت و احترام کرے، شرعی احکام اور دینی مسائل میں وہ قرآن و سنت کے مطابق جو کچھ کہیں اس کو قبول کرے اور اس پر عمل کرے ان کی اچھی باتوں اور ان کے نیک اعمال کی پیروی کرے۔ اور تمام مسلمانوں کے حق میں خیر خواہی کا مطلب ان کی دینی دنیاوی خیر و بھلائی کا طالب رہے ان کو دین کی تبلیغ کرے ان کو دنیا کے اس راستہ پر چلانے کی کوشش کرے اور ان کو کسی بھی طرح نقصان پہنچانے کی بجائے نفع پہنچانے کی سعی کرے۔ واضح رہے کہ یہ حدیث بھی جوامع الکلم میں سے ہے اس کے مختصر الفاظ حقیقت میں دین و دنیا کی تمام بھلائیوں اور سعادتوں پر حاوی ہیں اور تمام علوم اولین و آخرین اس چھوٹی سی حدیث میں مندرج ہیں۔
-
عن جرير بن عبد الله قال بايعت رسول الله صلى الله عليه وسلم على إقام الصلاة وإيتاء الزكاة والنصح لكل مسلم . متفق عليه-
" اور حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ سے اس بات پر بیعت کی کہ پابندی کے ساتھ نماز پڑھوں گا زکوۃ ادا کروں گا اور ہر مسلمان کے حق میں خیر خواہی کروں گا۔ ( بخاری ومسلم) تشریح اللہ تعالیٰ کی تمام تر عبادت و طاعت کا تعلق دو ہی چیزوں سے ہے ایک تو حقوق اللہ ، دوسرے حقوق العباد ، لہذا حضرت جریر نے حقوق اللہ میں خاص طور پر ان عبادات کا ذکر کیا جو تمام بدنی اور مالی عبادتوں میں شہادت کے بعد سب سے اعلی و افضل ہیں اور ارکان اسلام میں سے اہم ترین رکن ہیں یعنی نماز اور زکوہ جہاں تک روزہ اور حج کا تعلق ہے تو ہو سکتا ہے کہ جس وقت حضرت جریر نے بیعت کی ہو اس وقت تک یہ دونوں روزہ اور حج مسلمانوں پر فرض نہ قرار دیئے گئے ہوں اسی طرح حقوق العباد سے متعلق اس چیز کو ذکر کیا جس کے دائرے میں بندون کے تمام حقوق آ جاتے ہیں یعنی خیر خواہی۔ انہی حضرت جریر کا ایک واقعہ اس موقع پر نہایت مطابق ہے اور جس سے ان کی مذکورہ بالا بیعت کا عملی نمونہ سامنے آتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت جریر نے ایک گھوڑا تین سو درہم کے عوض خرید لیا، انہوں نے بیچنے والے سے کہا کہ تمہارا یہ گھوڑا تو تین سو درہم سے زیادہ قیمت ہے تم اس کی قیمت چار سو درہم لو گے؟ اس نے کہا ابن عبداللہ تمہاری مرضی پر موقوف ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ تو گھوڑا چار سو درہم سے بھی زیادہ کا معلوم ہوتا ہے تم کیا اس کی قیمت پانچ سو درہم لینا پسند کرو گے؟ وہ اسی طرح اس کی قیمت سو سو درہم بڑھاتے گئے اور آخرکار انہوں نے اس گھوڑے کی قیمت میں آٹھ سو درہم ادا کیے جب لوگوں نے ان سے گھوڑے کی قیمت بڑھانے کا سبب پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ اصل بات یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ سے یہ بیعت کی تھی کہ ہر مسلمان سے خیر خواہی کروں گا (چنانچہ جب میں نے دیکھا کہ اس گھوڑے کا مالک وہ قیمت طلب نہیں کر رہا جو حقیقت میں ہونی چاہیے تو میں نے اس کی خیر خواہی کے پیش نظر اس کو زیادہ سے زیادہ قیمت ادا کی۔
-