خوش خلقی کی اہمیت

وعن معاذ قال كان آخر ما وصاني به رسول الله صلى الله عليه وسلم حين وضعت رجلي في الغرز أن قال يا معاذ أحسن خلقك للناس . رواه مالك-
" اور حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے مجھے جن باتوں کی نصیحت و وصیت فرمائی ان میں سب سے آخری وصیت جو آپ نے اس وقت فرمائی جب کہ میں نے (گھوڑے پر سوار ہونے کے لیے اپنا پاؤں رکھا تھا یہ تھی کہ معاذ لوگوں کی تربیت و تعلیم کے لیے خوش خلقی اختیار کرنا۔ (مالک) تشریح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانہ حیات میں حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کا قاضی بنا کر بھیجا تھا چنانچہ جب حضرت معاذ رضی اللہ عنہ اپنا منصب سنبھالنے کے لیے یمن روانہ ہونے لگے تو حضور نے ان کو بہت سی نصیحتیں فرمائیں گھوڑے پر سوار کرایا اور رخصت کرنے کے لیے خود پاپیادہ کچھ دور تک ان کے ساتھ گئے اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے یہ الفاظ بھی فرمائے کہ معاذ، شاید تم پھر مجھے نہ دیکھ پاؤ چنانچہ معاذ کو اس کے بعد سرکار رسالت پناہ کی زیارت نصیب نہیں ہوئی، وہ یمن ہی میں تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دنیا سے پردہ فرما لیا، بہرحال حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے مذکورہ بالا روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جس وصیت کا ذکر کیا ہے وہ اسی موقع پر ان کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری نصیحت تھی۔ سیوطی کہتے ہیں کہ یہاں " لوگوں" سے مراد وہ لوگ ہیں جو خوش خلقی اور نرمی و مہربانی کے مستحق ہوں ورنہ جہاں تک اہل کفر و فسق اور ظالموں کا تعلق ہے وہ اس دائرہ سے خارج ہیں اور ان کے ساتھ سختی کا برتاؤ کرنے کا حکم ہے بلکہ سرکش لوگوں کے ساتھ اختیار کی جانے والی سختی درشتی کو ظاہر کرنا ہی حسن خلق میں داخل ہے کیونکہ نہ صرف ان کی تربیت و تہذیب اسی سختی و درشتی پر منحصر ہوتی ہے بلکہ ان کے ساتھ اختیار کیے جانے والے اس رویہ کے ساتھ دوسرے لوگوں کے حالات کی بہتری و سلامتی بھی وابستہ ہوتی ہے اس سے معلوم ہوا کہ سیوطی کے نزدیک گویا حدیث میں حسن خوش خلقی سے مراد نرمی و مہربانی اور عفو درگزر کا رویہ اختیار کرنا۔
-
وعن مالك بلغه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال بعثت لأتمم حسن الأخلاق رواه الموطأ ورواه أحمد عن أبي هريرة-
" اور حضرت مالک سے منقول ہے کہ ان تک یہ حدیث پہنچی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا میں اچھے اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث کیا گیا ہوں یعنی اس دنیا میں میری بعثت کا ایک عظیم مقصد یہ ہے کہ انسانی اخلاق و اوصاف کو بیان کروں اور ان کو درجہ کمال تک پہنچا دوں۔ (موطا امام مالک اور احمد نے اس روایت کو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے) اپنی بہترین صورت و سیرت پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کا شکر ادا کرتے تھے۔
-
وعن جعفر بن محمد عن أبيه قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا نظر في المرآة قال الحمد لله الذي حسن خلقي وخلقي وزان مني ما شان من غيري . رواه البيهقي في شعب الإيمان مرسلا-
" اور حضرت جعفر بن محمد اپنے والد بزرگوار حضرت امام باقر سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا، رسول اللہ جب آئینہ دیکھتے تو فرماتے کہ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں وہ اللہ کہ جس نے مجھ کو بہترین تخلیق سے نوازا میرے اخلاق و کردار کو اچھا بنایا اور مجھ میں ان چیزوں کو آراستہ جو میرے عیب و نقصان کا باعث ہیں، اس روایت کو بیہقی نے شعب الایمان میں بطریق ارسال نقل کیا ہے۔ تشریح حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح بعض آدمیوں کی جسمانی تخلیق میں کوئی عیب و نقصان ہوتا ہے کہ مثلا کوئی شخص ایک ہاتھ سے یا ایک آنکھ سے محروم ہوتا ہے یا کسی شخص کو کوئی ٹانگ ٹیڑھی ہوتی ہے یا کوئی اور عضو ناقص ہوتا ہے اس طرح اللہ نے مجھ میں کوئی جسمانی عیب نقصان نہیں رکھا بلکہ مجھ کو تمام عیوب سے محفوظ رکھا ملا علی قاری کی وضاحت سے یہ معلوم ہوتا ہے نقصان و عیب عام ہیں کہ اس کا تعلق خواہ جسمانی تخلیق و پیدائش سے ہو یا اخلاق و کردار سے ، بہرحال یہ حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ کسی بھی انسان کے مقابلہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیر و صورت بہت اعلی اور بہت خوب تھی اور جیسا کہ طیبی نے کہا ہے کہ مذکورہ بالا حدیث گویا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد، بعثت لاتیمم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کی وضاحت بھی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے حسن و صورت و حسن سیرت پر اللہ کا شکر ادا کرنا، اور اس کی حمد و ثناء کرنا، حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے اس حمد و شکر کی طرح ہے جس کو قرآن میں اللہ نے یوں فرمایا، ا یت (ولقد اٰتینا داؤد)۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الخ۔ یعنی بلاشبہ ہم نے داؤد اور سلیمان کو علم سے مالا مال کیا اور ان دونوں نے کہا کہ تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں اپنے مومن بندوں میں سے اکثر فضیلت عطا فرمائی۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آئینہ دیکھنا مستحب ہے اور اپنے حسن و صورت اور حسن سیرت پر اللہ کی حمد و ثناء کرنا بھی مستحب ہے کیونکہ یہ دونوں نعمتین اللہ کی طرف سے عطا ہوتی ہیں لہذا ان پر خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے رہی یہ بات کہ ظاہری حسن و خوبصورتی ایک ایسی چیز ہے جس کو آئینہ میں دیکھا جا سکتا ہے لہذا آئینہ دیکھ کر اس پر شکر ادا کرنا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن اس کے ساتھ حسن سیرت یا حسن خلق کا ذکر سمجھ میں نہیں آتا کیونکہ وہ ایک پوشیدہ چیز ہے جس کا آئینہ میں دیکھا جانا ناممکن ہی نہیں ہے؟ اس کے جواب میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ بے شک حسن سیرت کوئی نظر آنے والی چیز نہیں ہے لیکن انسان کا ظاہر بہر حال اس کے باطن کی غمازی کرتا ہے اور کسی دوسرے کے بارے میں بات چاہے صحیح نہ ہو لیکن رسول خدا پر یہ بات ضرور صادق آتی ہے کہ حسن صورت سیرت کا ایک جلی عنوان ہوتا ہے جس کو دیکھ کر باطن کے احوال کا ادراک کیا جا سکتا ہے لہذا اس منابست سے حضور نے حسن سیرت کے ساتھ حسن صورت کو بھی ذکر فرمایا اور اگر یہ سوال پیدا ہو کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ دوسرے لوگوں کو بھی یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں آئینہ دیکھ کر مذکورہ طرح سے حمد و ثناء کریں یا اس طرح حمد و ثناء کرنا صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مخصوص تھا اور دوسرے لوگ وہ دعا پڑھیں جو آگے آنے والے حدیث میں نقل کی گئی ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس حدیث میں حمد و ثناء اور شکر جو الفاظ مذکو رہیں ان کو ہر مومن پڑھ سکتا ہے کیونکہ انسان اس اعتبار سے کہ وہ اچھی صورت کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے کہ اور وہ صاحب الایمان ہے بلاشک و شبہ خدا کی مخلوق کامل اور دین و اخلاق کے اوصاف سے مزین ہونا ہوتا ہے تاہم بعض حضرات نے کہا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حمد و ثناء اور شکر کے مذکورہ الفاظ اپنی ذات کے تعلق سے فرمائے ہوئے تھے اور ظاہر ہے کہ حسن صورت اور حسن سیرت کا وصف جو کمال و نہایت کے ساتھ حضور کی ذات میں تھا وہ کسی دوسرے میں نہیں ہو سکتا اس لیے کسی دوسرے کے لیے ان الفاظ کو استعمال کرنا موزوں نہیں ہوگا امت کے بعض افراد کے اعتبار سے اس طرح کے الفاظ کے استعمال کو جائز نہ کہا جائے لیکن امت کے لیے بہتر یہی ہے کہ اسی دعا کو اختیار کیا جائے جو اگلی حدیث میں منقول ہے۔
-