TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
لباس کا بیان
خضاب کرنے کا مسئلہ
وعن أبي هريرة أن النبي صلى الله عليه وسلم قال إن اليهود والنصارى لا يصبغون فخالفوهم .-
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا 'یہودی اور عیسائی خضاب نہیں لگاتے لہٰذا تم ان کے خلاف کرو ۔" (بخاری و مسلم ) تشریح مطلب یہ ہے کہ تم لوگ خضاب لگا کر یہودیوں اور عیسائیوں کی مخالفت کو ظاہر کرو ۔ واضح رہے کہ " خضاب " سے مراد وہ خضاب ہے جو سیاہ نہ ہو کیونکہ سیاہ خضاب لگانا ممنوع ہے، اس کی تفصیلی بحث آگے آئے گی، جہاں تک صحابہ وغیرہ کا تعلق ہے تو وہ مہندی کا سرخ خضاب کرتے اور کبھی کبھی زرد خضاب بھی کر لیا کرتے تھے چنانچہ مہندی کا خضاب لگانے کے بارے میں متعدد احادیث منقول ہیں اور علماء نے لکھا ہے کہ مہندی کا خضاب مؤمن ہونے کی ایک علامت ہے، تمام علماء کے نزدیک مہندی کا خضاب لگانا جائز ہے، بلکہ بعض فقہاء نے مردوں اور عورتوں دونوں کے لئے اس کو مستحب بھی کہا ہے اور اس کے فضائل میں وہ احادیث بھی نقل کرتے ہیں اگرچہ ان احادیث کو محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے ۔ مجمع البحار میں لکھا ہے کہ اس حدیث میں خضاب کرنے کا حکم ان لوگوں کے لئے نہیں ہے جن کے بال کھچڑی یعنی کچھ سیاہ اور کچھ سفید ہوں، بلکہ ان لوگوں کے لئے ہے جن کے بال بالکل سفید ہو گئے ہوں اور سیاہ بالوں کا نام و نشان بھی باقی نہ رہ گیا ہو، جیسا کہ حضرت ابوقحافہ رضی اللہ عنہ کے بال تھے، جن کے متعلق اگلی حدیث میں ذکر آ رہا ہے، اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ خضاب کے مسئلہ میں علماء کے اقوال مختلف ہیں اور اس اختلاف کی بنیاد احوال کے مختلف ہونے پر ہے ۔ بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ اس حکم کا تعلق اس مسلم شہر و علاقہ کے لوگوں سے ہے جہاں خضاب لگانے کا عام دستور ہو کہ اگر کوئی شخص اپنے شہر کے لوگوں کے تعامل و عادت سے اپنے آپ کو الگ رکھے گا تو غیر مناسب شہرت کا حامل ہو گا جو مکروہ ہے اور بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ جس شخص کے بالوں کی سفیدی اس کے باوقار و پاکیزہ بڑھاپے کی علامت اس کے چہرے مہرے کی نورانیت اور خوشنمائی کا سبب ہو بلکہ، خضاب کرنے سے اس کی شخصیت کا وقار پھیکا پڑ جاتا ہو تو اس کے حق میں خضاب نہ کرنا ہی زیادہ بہتر اور زیادہ مناسب ہے اس کے برخلاف جس شخص کے بالوں کی سفیدی اس کے بدنما اور بے وقت بڑھاپے کی غماز ہو جس کی وجہ سے اس کی شخصیت کی دل کشی مجروح ہوتی ہو تو اس کو اپنا یہ عیب چھپانا اور خضاب لگانا زیادہ بہتر و مناسب ہے ۔
-
وعن جابر قال أتي بأبي قحافة يوم فتح مكة ورأسه ولحيته كالثغامة بياضا فقال النبي صلى الله عليه وسلم غيروا هذا بشيء واجتنبوا السواد . رواه مسلم . ( متفق عليه )-
اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے والد ) ابوقحافہ کو فتح مکہ کے دن لایا گیا اور اسی دن انہوں نے اسلام قبول کیا ان کے سر اور داڑھی کے بال گویا ثغامہ تھے یعنی بالکل سفید تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ ان بالوں کی سفیدی کو کسی چیز کے ذریعہ بدل ڈالو لیکن سیاہ رنگ سے اجتناب کرنا یعنی سیاہ خضاب استعمال نہ کرنا ۔" (مسلم ) تشریح " ثغامہ " ایک قسم کی گھاس کو کہتے ہیں جس کے شگوفے اور پھل سفید ہوتے ہیں اس گھاس کو فارسی میں ورمغہ کہا جاتا ہے اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سیاہ خضاب مکروہ حرام ہے اور مطالب المؤمنین میں علماء کا یہ قول لکھا ہے کہ اگر کوئی غازی و مجاہد و دشمنان دین کی نظر میں اپنی ہیبت قائم کرنے کے لئے سیاہ خضاب کرے تو جائز ہے اور جو شخص اپنے نفس کو خوش کرنے کے لئے زینت و آرائش کی خاطر اور عورت کی نظر میں دل کش بننے کے لئے سیاہ خضاب کرے تو یہ اکثر علماء کے نزدیک ناجائز ہے ۔ اس سلسلے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں جو کچھ منقول ہے اس کی حقیقت یہ ہے کہ وہ مہندی اور وسمہ (نیل کے پتے ) کا خضاب کرتے تھے اور اسی خضاب کی وجہ سے ان کے بالوں کا رنگ سیاہ نہیں ہوتا تھا ۔ بلکہ سرخ مائل بہ سیاہی ہوتا تھا، اسی طرح اس سلسلے میں بعض دوسرے صحابہ کے متعلق جو روایات نقل کی جاتی ہیں وہ بھی اسی پر محمول ہیں ۔ حاصل یہ کہ مہندی کا خضاب بالاتفاق جائز ہے اور سیاہ خضاب میں حرمت و کراہت ہے بلکہ اس کے بارے میں بڑی سخت وعید بیان کی گئی ہے، جیسا کہ دوسری فصل میں بیان ہو گا ۔
-