خدا اور لوگوں کی نظر میں محبوب بننے کا طریقہ

وعن سهل بن سعد قال جاء رجل فقال يا رسول الله دلني على عمل إذا أنا عملته أحبني الله وأحبني الناس . قال ازهد في الدنيا يحبك الله وازهد فيما عند الناس يحبك الناس رواه الترمذي وابن ماجه-
سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے (بارگاہ رسالت میں) حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ کو کوئی ایسا عمل بتا دیجئے کہ میں جب اس کو اختیار کروں تو اللہ تعالیٰ بھی مجھ سے محبت رکھے اور لوگ بھی مجھ سے محبت کریں؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ " دنیا سے زہد اختیار کرو (یعنی دنیا کی محبت میں گرفتار نہ ہو، اس کی فضولیات سے اعراض کرو اور امور آخرت کی طرف متوجہ رہو) اگر تم ایسا کرو گے تو گویا تم اس چیز سے نفرت کرنے والے ہوں گے جس سے اللہ تعالیٰ نفرت کرتا ہے اور اس کی وجہ سے) اللہ تعالیٰ تم سے محبت رکھے گا اور اس چیز کی طرف رغبت نہ کرو جو لوگوں کے پاس ہے (یعنی جاہ ودولت) لوگ تم سے محبت کریں گے۔ (ترمذی، ابن ماجہ) تشریح : کسی چیز کی طرف خواہش و میلان نہ رکھنے کو " زہد" کہتے ہیں اور کامل وصادق زہد یہ ہے کہ دنیا کی لذات میسر ہونے کے باوجود ان سے بے رغبتی اختیار کی جائے، چنانچہ بعض حضرات نے کہا ہے کہ اس شخص کے بارے میں " زہد" تصور ہی نہیں ہوسکتا جو نہ مال ودولت رکھتا ہو اور نہ جاہ وحشم کا مالک ہو، بلکہ حقیقت کے اعتبار سے " زاہد" وہی شخص ہے جو مال ودولت اور جاہ وحشم کا مالک ہونے کے باوجود ان کی لذات سے دور رہے، منقول ہے کہ ایک مرتبہ کسی شخص نے حضرت ابن مبارک رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کو " یا زاہد" کہہ کر مخاطب کیا تو انہوں نے فرمایا کہ زاہد تو بس حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ تھے جن کے دامن میں دنیا کھنچی آتی تھی مگر اس کے باوجود وہ دنیاوی لذات سے ترک تعلق رکھتے تھے اور ہمارے پاس کیا رکھا ہے کہ ہم زہد اختیار کریں گے، حاصل یہ کہ اصل میں " زہد" یہ ہے کہ لوازمات دنیا میں کھانے پینے اور پہننے کی فراوانی کے باوجود بقدر ضرورت پر قناعت کی جائے اور فضولیات کو ترک کیا جائے۔
-