TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
لباس کا بیان
حمام میں جانے کا ذکر
وعن عائشة أن النبي صلى الله عليه وسلم نهى الرجال والنساء عن دخول الحمامات ثم رخص للرجال أن يدخلوا بالميازر . رواه الترمذي وأبو داود .-
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں اور عورتوں کو حمام میں جانے سے منع فرما دیا تھا، پھر بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کو اس صورت میں جانے کی اجازت دے دی تھی جب کہ ان کے جسم پر تہبند ہو ! (ترمذی، ابوداؤد ) تشریح " حمام " سے مراد وہ غسل خانے ہیں جو عوامی ضرورت کے لئے بازاروں میں بنائے جاتے ہیں اور جہاں ہر کس و ناکس نہانے کی غرض سے آتا جاتا ہے بلکہ پہلے زمانوں میں تو اس قسم کے حمام ہوتے تھے، جہاں علیحدہ علیحدہ نہانے کا کوئی انتظام نہیں ہوتا تھا بلکہ کئی کئی آدمی ایک ہی جگہ ساتھ ساتھ غسل کرتے تھے ظاہر ہے کہ اس صورت میں ستر پوشی ممکن نہیں ہو سکتی تھی اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو حمام میں جانے سے منع کر دیا البتہ بعد میں مردوں کو اس شرط کے ساتھ جانے کی اجازت دی کہ وہ بغیر تہبند کے جو گھٹنوں تک ہونا ضروری ہے وہاں غسل نہ کریں ۔ مظہر کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (تہبند کی شرط کے ساتھ بھی ) عورتوں کو حمام میں جانے کی اجازت اس لئے نہیں دی کہ ان کے اعضاء ستر کے حکم میں داخل ہیں کہ ان کے جسم کا کوئی حصہ بھی کھولنا جائز نہیں ہے تاہم واقعی ضرورت و مجبوری کی صورت میں عورتوں کے لئے بھی اجازت ہے مثلا شدید سردی کے موسم میں حیض و نفاس سے فراغت کے بعد، یا ناپاک ہونے کی صورت میں نہانے کی ضرورت ہو یا کسی علاج کے سلسلے میں گرم پانی سے نہانا ضروری ہو اور گرم پانی کا حمام کے علاوہ اور کہیں انتظام نہ ہو نیز ٹھنڈے پانی سے نہانا ضرر و نقصان کا باعث ہو تو اس صورت میں عورت کو بھی حمام جانے کی مخصوص اجازت ہو گی ۔ یہاں یہ خلجان پیدا ہو سکتا ہے کہ اس وضاحت سے وہ وجہ ظاہر نہیں ہوئی جس سے یہ واضح ہوتا کہ اس ممانعت میں مردوں اور عورتوں کے درمیان فرق کیوں کیا گیا ہے کیونکہ عورت کی موجودگی میں عورت کے لئے فرق وہی حکم ہے جو مرد کی موجودگی میں مرد کے لئے ہے جس طرح مرد کو کسی مرد کے سامنے اپنے جسم کو کھولنا جائز ہے ۔علاوہ اس حصہ جسم کے جو شرعی طور پر عورت کے لئے ستر کے حکم میں ہے اس اعتبار سے قیاس کا تقاضا تو یہی ہے کہ مردوں کی طرح عورتوں کو بھی یہ اجازت ہونی چاہئے کہ وہ زنانہ حمام میں جا سکتی ہیں بشرطیکہ وہ اپنے جسم کے اس حصے کو ضرور چھپائے رہیں جن کو عورت کے سامنے بھی کھولنا جائز نہیں ہے؟ اس خلجان کو اس توجیہ کے ذریعہ رفع کیا جا سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو مذکورہ شرط کے ساتھ حمام میں جانے کی اجازت اس لئے نہیں دی ہو گی کہ عام طور پر عورتیں اپنی ہم جنسوں کے سامنے اپنی ستر پوشی کا کوئی خاص لحاظ نہیں رکھتیں، بعض عورتیں ایسی ہوتی ہیں جو عورتوں کے سامنے حتی کہ اجنبی عورتوں تک کے سامنے اپنے ستر کی عریانیت کو معیوب نہیں سمجھتیں، چہ جائیکہ اپنی اقا رب جیسے ماں یا بیٹی یا بہن وغیرہ کے سامنے ستر کھولنے کو کوئی برائی سمجھیں یہاں تک کہ گھر میں بھی غسل وغیرہ کے مواقع پر عورتیں ایک دوسرے کے سامنے اپنے ستر کو چھپانے کا خیال نہیں رکھتیں چہ جائیکہ حمام میں کہ جہاں ویسے بھی ایک دوسرے کے سامنے ستر پوشی بڑی مشکل سے قائم رکھنی پڑتی ہے بلکہ اکثر عورتیں تو کوئی کپڑا وغیرہ لپٹنیے تک روادار نہیں ہوتیں، لہٰذا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نور نبوت کے ذریعہ عورتوں کی اس حالت کا ادراک کر لیا اور ان کے لئے راستہ ہی کو بند کر دیا ۔
-
وعن أبي المليح قال قدم على عائشة نسوة من أهل حمص فقالت من أين أنتن ؟ قلن من الشام فلعلكن من الكورة التي تدخل نساؤها الحمامات ؟ قلن بلى قالت فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول لا تخلع امرأة ثيابها في غير بيت زوجها إلا هتكت الستر بينها وبين ربها . وفي رواية في غير بيتها إلا هتكت سترها بينها وبين الله عز وجل . رواه الترمذي وأبو داود .-
اور حضرت ابوملیح کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں (ملک شام کے شہر ) حمص کی کچھ عورتیں آئیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے پوچھا تم کہاں کی رہنے والی ہو؟ انہوں نے کہا کہ ملک شام کی، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ شاید تم اس علاقہ کی رہنے والی ہو جہاں کی عورتیں حمام میں جاتی ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ہاں ! تب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جو بھی عورت اپنے خاوند کے گھر کے علاوہ کہیں اور کپڑے اتارتی ہے تو (گویا ) وہ اس پردہ کو چاک کر دیتی ہے جو اس کے اور اللہ عزوجل کے درمیان ہے، یعنی اس روایت میں فی بیت غیر زوجھا کی بجائے فی بیتھا کے الفاظ ہیں ۔" (ترمذی، ابوداؤد ) تشریح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے گویا مذکورہ حدیث عورتوں کے حمام جانے کے خلاف دلیل کے طور پر پیش کی، جس کا مطلب یہ ہے کہ عورت کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ پردہ میں رہے اور اس بات سے اپنے آپ کو بچائے کہ کوئی اجنبی اس کو دیکھے، یہاں تک کہ اس کے لئے یہ بھی مناسب نہیں ہے کہ وہ اپنے خاوند کی موجودگی کے علاوہ خلوت (تنہائی ) میں بھی اپنا ستر کھولے، لہٰذا جب وہ ضرورت شرعی حمام میں گئی اور وہاں اس نے اجنبی نظروں کا لحاظ کئے بغیر اعضاء و جسم کو عریاں کر دیا تو اس نے گویا اس پردہ کو چاک کر دیا جس میں اپنے جسم کو چھپانے کا حکم اس کو اللہ تعالیٰ نے دیا تھا ۔ یحییٰ کہتے ہیں کہ مذکورہ ارشاد گرامی صلی اللہ علیہ وسلم کی بنیاد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لباس کو اس لئے نازل کیا ہے کہ اس کے ذریعہ اپنے ستر کو چھپایا جائے گویا وہ لباس اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کا ذریعہ ہے، لہٰذا جس عورت نے اللہ تعالیٰ کے اس منشاء و حکم کو پورا نہیں کیا اور اپنے ستر کو عریاں کیا تو گویا اس نے اس پردہ کو پھاڑ ڈالا جو اس کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ہے ۔
-
وعن عبد الله بن عمرو أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ستفتح لكم أرض العجم وستجدون فيها بيوتا يقال لها الحمامات فلا يدخلنها الرجال إلا بالأزر وامنعوها النساء إلا مريضة أو نفساء . رواه أبو داود .-
اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔عنقریب تمہیں عجم کی سر زمین پر فتح حاصل ہو گی جہاں تمہیں ایسے گھر ملیں گے جن کو حمام کہا جائے گا، لہٰذا (خبردار ) ان میں داخل ہونے سے بالکل منع کر دینا الا یہ کہ کوئی عورت بیمار ہو یا نفاس کی حالت میں ہو۔ (ابوداؤد ) تشریح مطلب یہ ہے کہ مردوں کو تو حمام میں جانے کی اس شرط کے ساتھ اجازت بھی ہے کہ وہ تہبند باندھے رکھیں، لیکن عورتوں کو مطلق اجازت نہیں ہے خواہ وہ تہبند باندھے ہوئے ہوں یا بغیر تہبند کے ہوں، کیونکہ عورت کا پورا جسم سر سے پاؤں تک ستر ہے جب کہ مرد کا پورا جسم ستر نہیں ہے بلکہ صرف ناف سے زانوں تک کا حصہ چھپانا اس کے لئے ضروری ہے اس لئے تہبند باندھنے سے ان کی ستر پوشی ہو جاتی ہے تاہم اگر کوئی عورت بیمار ہو اور کسی علاج کے سلسلے میں اس کے لئے گرم پانی سے نہانا ضروری ہو، یا کوئی عورت ولادت سے فارغ ہوئی ہو تو غسل کے لئے یا اسی طرح کے کسی اور شرعی عذر کی بنا پر اس کے زنانہ حمام میں داخل ہونا جائز ہو گا خواہ وہ وہاں تہبند جیسی کوئی چیز لپیٹ کر غسل کرے یا بالکل عریاں حالت میں، بغیر عذر حمام میں داخل ہونا عورتوں کے لئے جائز نہیں ہے ۔
-
وعن جابر أن النبي صلى الله عليه وسلم قال من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فلا يدخل الحمام بغير إزار ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فلا يدخل حليلته الحمام ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فلا يجلس على مائدة تدار عليها الخمر . رواه الترمذي والنسائي .-
اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔" جو شخص اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنی عورت کو حمام میں داخل نہ ہونے دے " اور جو شخص اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اس دستر خوان پر نہ بیٹھے جس پر شراب کا دور چلتا ہو۔" (ترمذی ، نسائی ) تشریح " اپنی عورت کو حمام میں داخل نہ ہونے دے " کا مطلب یہ ہے کہ اپنی بیوی کو حمام میں جانے کی اجازت نہ دے اس حکم میں ماں، بیٹی اور بہن وغیرہ ایسی عورتیں بھی شامل ہیں جو اس (مرد) کے قابو و اختیار میں ہوں، نیز مرد کے لئے یہ مکروہ ہے کہ وہ حمام میں جانے کی اجرت دینے کے لئے اپنی بیوی وغیرہ کو روپیہ پیسہ دے کیونکہ اس صورت میں وہ ایک مکروہ عمل کا مدد گار بنے گا ۔ فقہ کی بعض کتابوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حمام میں جانا نقل کیا گیا ہے لیکن محدثین کے نزدیک یہ صحیح نہیں ہے اور اس کے بارے میں حدیث منقول ہے اس کو موضوع یعنی من گھڑت قرار دیا گیا ہے کیونکہ یہ بات درجہ صحت پایئہ ثبوت کو پہنچی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کبھی بھی حمام میں نہیں گئے ہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حمام کی صورت بھی کبھی نہیں دیکھی ! رہی اس حمام کی بات جو مکہ معظمہ میں حمام النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے مشہور ہے تو ہو سکتا ہے کہ جس جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی غسل کیا ہو گا اس کو حمام کی صورت دے دی گئی ہو اور پھر اس کو حمام النبی صلی اللہ علیہ وسلم کہا جانے لگا ہو، نیز ایک احتمال یہ بھی ہے کہ وہ جگہ " حمام النبی صلی اللہ علیہ وسلم " اس مناسبت سے زبان زد خاص و عام ہو گئی ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش مبارک کی جگہ اسی مقام کے اطراف و جوانب میں واقع ہے تاہم احادیث میں " حمام " کا ذکر ضرور موجود ہے جیسا کہ مذکورہ روایات سے ظاہر ہوا ۔ " اس دسترخوان پر نہ بیٹھے " کا مطلب یہ ہے کہ اس جگہ ہرگز نہ جائے جہاں شراب کا دور چلتا ہو اور شرابی لوگ وہاں مے نوشی کرتے ہوں ۔ لہٰذا وہاں جانے والا مسلمان اگر شراب نوشی میں شامل نہ بھی ہو تو اس صورت میں اس پر یہ تو واجب ہو ہی گا کہ وہ وہاں شراب پینے والوں کو اس برے فعل سے روکے لیکن وہاں پہنچ جانے کے باوجود اگر اس نے نہ تو ان لوگوں کو شراب پینے سے روکا، نہ ان سے بے اعتنائی کا برتاؤ کیا اور نہ ان کے خلاف اپنی نفرت و غصہ کا اظہار کیا تو یقینا اس کا شمار کامل مؤمنین میں نہیں ہو گا ۔
-