حقیقی زہد کیا ہے؟

وعن سفيان الثوري قال ليس الزهد في الدنيا بلبس الغليظ والخشن وأكل الجشب إنما الزهد في الدنيا قصر الأمل . رواه في شرح السنة-
حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا۔ دنیا میں زہد اس کا نام نہیں ہے کہ موٹے چھوٹے اور سخت کپڑے پہن لئے جائیں اور روکھا سوکھا اور بدمزہ کھانا کھایا جائے بلکہ دنیا سے زہد اختیار کرنا حقیقت میں آرزوؤں اور امیدوں کی کمی کا نام ہے۔ (شرح السنۃ) تشریح " غلیظ" سے وہ کپڑا مراد ہوتا ہے جس کے سوت نہایت موٹے اور بھدے ہوں اور خشن سے مراد وہ کپڑا ہوتا ہے جو نہایت سخت اور کھدری بناوٹ کا ہو جشب اس کھانے کو کہتے ہیں جو نہایت بد مزہ ہو، اور بعض حضرات کہتے ہیں کہ بغیر سالن کی روٹی کو " جشب" کہتے ہیں آرزوؤں اور امیدوں کی کمی کا مطلب ہے دنیاوی چیزوں کے حصول کی خواہشات اور درازی عمر کی تمنا کو ختم کر کے بلا تاخیر توبہ و اناب اور علم وعمل کی راہ اختیار کر لینا اور ہمہ وقت موت کے لئے تیار رہنا۔ حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ کے مزکورہ بالا عارفانہ قول کا مطلب یہ ہے کہ زہد، دنیا سے بے رغبتی بے اعتنائی کی اس کیفیت کا نام ہے جو انسانی قلب پر اس طرح طاری ہو کہ وہ قلب دنیا سے بیزار، اور آخرت کی طرف راغب ومتوجہ رہے ، گویا زہد کا مدار اس بات پر نہیں ہے کہ انسان کا قالب یعنی جسم وبدن دنیا کی جائز ومباح چیزوں سے فائدہ اٹھاتا ہے یا نہیں کیونکہ حقیقت کے اعتبار سے اس زہد کے معاملہ میں یہ دونوں برابر ہوں یعنی ایک شخص جسمانی طور پر خوش پوشاک وخوش خوراک ہونے کے باوجود قلبی طور پر ہمہ وقت آخرت کی طرف متوجہ و راغب رہ سکتا ہے اور ایک شخص جسمانی طور پر خوش پوشاکی وخوش خوراکی سے بیزار رہتے ہوئے بھی قلبی طور پر آخرت کی طرف زیادہ متوجہ و راغب نہیں رہ سکتا۔ اگرچہ لباس کی بے حیثتی وسادگی اور کھانے کی بدمزگی، سلوک و طریقت کی راہ میں بندے کی استقامت و استواری پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتی ہے۔ حاصل یہ کہ جو سالک جسمانی طور پر تو دنیا سے اجتناب کرے لیکن اس کے دل میں دنیا کی محبت جاگزیں ہو تو یہ چیز اس کے لئے نہایت مہلک اور تباہ کن ہے۔ اس کے برخلاف اگر وہ جسمانی طور پر تو دنیا کی جائز ومباح نعمتوں اور لذتوں سے فائدہ اٹھائے، مگر اس کا دل دنیا کی محبت سے خالی اور آخرت کی طرف متوجہ ہو تو یہ اس کے حق میں بہت بہتر ہے۔ جاننا چاہئے کہ دل کی مثال کشتی کی سی ہے کہ اگر پانی کشتی کے اندر آ جائے تو وہ نہ صرف کشتی بلکہ اس میں بیٹھے لوگوں کو بھی ڈبو دیتا ہے ، لیکن وہی پانی جب اسی کشتی کے باہر اور اس کے گرد رہتا ہے تو اس کشتی کو رواں کرتا ہے اور منزل تک پہنچاتا ہے، اسی لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے نعم المال المال الصالح للرجل الصالح اور اسی وجہ سے صوفیاء کی ایک جماعت کے بارے میں منقول ہے کہ وہ حضرات اسی طرح کا لباس پہنا کرتے تھے جیسا کہ عام طور پر رائج تھا بلکہ بعض نے تو امیروں اور رئیسوں جیسا لباس بھی پہنا ہے تاکہ ان کے باطنی احوال کا انکشاف نہ ہو۔
-
وعن زيد بن الحسين قال سمعت مالكا وسئل أي شيء الزهد في الدنيا ؟ قال طيب الكسب وقصر الأمل . رواه البيهقي في شعب الإيمان-
حضرت زید بن حصین رضی اللہ عنہ ( جو حضرت امام ملک رحمہ اللہ کے رفقاء اور مصاحبین میں سے تھے) کہتے ہیں میں نے حضرت امام مالک رحمہ اللہ کو یہ کہتے ہوئے سنا جب کہ ان سے پوچھا گیا کہ دنیا سے زہد اختیار کرنا کس چیز کا نام ہے؟ انہوں نے فرمایا۔ حلال کمائی اور آرزوؤں کی کمی کا نام، زہد ہے۔ (بیہقی) تشریح " کسب" یہاں " مکسوب" کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ یعنی کھانے پینے کی وہ چیزیں جو حلال و پاکیزہ ہوں! حاصل یہ کہ " زہد" اس چیز کا نام نہیں ہے کہ انسان ان چیزوں کو بھی کھانے پینے اور ان سے بقدر ضرورت فائدہ اٹھانے سے پرہیز کرے جو اس کے حق میں حلال و پاکیزہ ہیں، کیونکہ اگر ان چیزوں سے فائدہ اٹھانا " زہد" کے منافی اور غیر مستحسن ہوتا تو اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں سے یہ نہ فرماتا کہ ا یت (کلوا من الطیبات واعملوا صالحا) اور نہ اہل ایمان کو یہ حکم دیا جاتا کہ ا یت (یا ایھا الذین امنوا کلوا من الطیبات ما رزقناکم واشکروا للہ ان کنتم ایاہ تعبدون)۔ بلکہ زہد یہ ہے انسان کو جائز وسائل و ذرائع سے جو حلال پاکیزہ چیزیں حاصل ہوں ان سے بقدر ضرورت فائدہ اٹھائے اور غیر حلال وغیرہ پاکیزہ چیزوں سے کلیۃ اجتناب کرے، اسی طرح ایک اور چیز، جس کا تعلق زہد سے ہے ، یہ ہے کہ انسان آرزوؤں اور امیدوں کا اسیر بن کر کاہل و سست اور آخرت سے غافل نہ بن جائے بلکہ ہمہ وقت آخرت کی طرف متوجہ رہے اور زیادہ سے زیادہ اچھے عمل کرنے میں مشغول رہے تاکہ جس وقت بھی پیغام اجل آ جائے، وہ اپنی جان ، جاں آفریں کے سپرد کرنے پر اپنے کو بالکل تیار پائے، یہی وہ " زہد" ہے جو شریعت کی نظر میں مطلوب ہے اور جو انسان کو عاقبت اندیش بناتا ہے اور آخرت کی طرف متوجہ رکھتا ہے۔ اگر اس موقع پر ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ " زہد" محض اس چیز کا نام ہے کہ دنیا سے بالکل بے تعلقی اور کنارہ کشی اختیار کر لی جائے، موٹا جھوٹا کپڑا پہنچا جائے اور روکھی سوکھی روٹی کھانے پر عمل پیرا رہا جائے، چنانچہ حضرت امام مالک رحمہ اللہ نے اس بات کو بجا طور پر واضح فرمایا حقیقی زہد وہ نہیں ہے جس کو تم نے اپنے گمان میں جگہ دے رکھی ہے بلکہ زہد کی حقیقت یہ ہے کہ خدا تمہیں جائز ذریعوں سے جو کچھ حلال و پاکیزہ چیزیں عطا کرے ان کو کھاؤ پیو، ان سے فائدہ اٹھاؤ اور قدر ضرورت پر قناعت کرو نیز ضرورت سے زیادہ چیزوں کی امید و آرزو اور درازی عمر کی تمنا نہ رکھو جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے۔ دنیا سے زہد اختیار کرنا اس چیز کا نام نہیں ہے کہ حلال چیزوں کو اپنے اوپر حرام قرار دے لو اور اپنے مال و اسباب کو ضائع کر ڈالو، بلکہ زہد دراصل اس چیز کا نام ہے کہ جو چیز تمہارے ہاتھ میں اس پر اس چیز سے زیادہ اعتماد نہ کرو جو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
-