TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
نماز کا بیان
حضرت معاذ کے دو مرتبہ نماز پڑھنے کی حقیقت
عَنْ جَابِرٍص قَالَ کَانَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ ص ےُّصَلِّیْ مَعَ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم ثُمَّ ےَاْتِیْ قَوْمَہُ فَےُصَلِّیْ بِھِمْ ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت معاذ ابن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ (پہلے تو) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نماز پڑھتے تھے اور پھر اپنی قوم کے پاس آکر انہیں نماز پڑھاتے تھے۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح حضرت معاذ ابن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ معمول تھا کہ وہ عشاء کی سنتیں یا نفل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ پڑھتے تھے تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ اور مسجد نبوی میں نماز پڑھنے کی فضیلت و سعادت حاصل ہو جائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز پڑھنے کا طریقہ بھی معلوم ہو جائے پھر وہاں سے اپنی قوم میں آکر لوگوں کو فرض نماز پڑھایا کرتے تھے۔
-
وَعَنْ جَابِرِ قَالَ کَانَ مُعَاذُ یُصَلِّیْ مَعَ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلماَلْعِشَاءَ ثُمَّ یَرْ جِعُ اِلٰی قَوْمِہٖ فَیُصَلِّیْ بِہِمُ الْعِشَاءَ وَہِیَ لَہُ نَافِلَۃٌ (رواہ البُخَارِیُّ)-
" اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت معاذ ابن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ عشاء کی نماز (پہلے تو ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ پڑھتے تھے پھر اپنی قوم میں آتے اور ان کو عشاء کی نماز پڑھاتے اور وہ ان کے لیے نفل ہوتی۔" تشریح حضرت معاذ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ پہلے تو عشاء کی نماز پڑھتے وقت عشاء کی سنت کی نیت کرتے ہوں گے یا نفل نماز کی نیت کر لیتے ہوں گے پھر اپنی قوم کے پاس آکر ان کی امامت کرتے اور اس وقت فرض نماز پڑھتے تھے۔ حدیث کے آخری الفاظ وھی لہ نا فلۃ کا مطلب سمجھنے سے پہلے یہ بات ذہن نشین کر لیجئے کہ دو مرتبہ نماز پڑھنے کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں ایک تو یہ کہ ایک آدمی نے اپنے مکان میں تنہا یا جماعت کے ساتھ نماز پڑھی اس کے بعد مسجد آیا تو دیکھا کہ وہاں اسی نماز کی جماعت ہو رہی ہے تو جو پہلے پڑھ چکا ہے۔ وہ مسجد میں جماعت کی فضیلت حاصل کرنے کی غرض سے جماعت میں شریک ہو کر دوبارہ نماز پڑھ لیتا ہے اس صورت میں فرض نماز کی ادائیگی چونکہ پہلے ہو چکی ہے اس لیے یہ جماعت کی نماز اس کے لیے نفل ہو جائے گی ۔ دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ ایک آدمی کسی مسجد کا امام ہے وہ اپنی مسجد میں نماز پڑھانے سے پہلے کسی خاص موقعہ پر یا کسی خاص آدمی کے ساتھ نماز پڑھنے کی فضیلت حاصل کرنے کی غرض سے بہ نیت نفل نماز پڑھ لیتا ہے پھر اس کے بعد اپنی مسجد میں آکر لوگوں کو نماز پڑھاتا ہے ایسی صورت میں بعد کی نماز فرض ادا ہوگی اور پہلی نماز نفل ہو جائے گی۔ اس تفصیل کو سمجھنے کے بعد اس جملے کا مطلب آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے اور وہ یہ کہ دوسری نماز جو جماعت کے ساتھ فرض یا نفل ادا ہوتی ہے یا پہلی نماز دو مرتبہ پڑھنے والے کے حق میں نافلہ یعنی خیرو بھلائی کی زیاتی اور ثواب کی کثرت کا باعث ہوتی ہے۔ جن لوگوں نے اس جملے کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ " وہ دوسری نماز جو حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قوم کے ہمراہ پڑھتے تھے حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نفل نماز اور ان کی قوم کی عشاء کی فرض نماز ہوتی تھے۔" حقیقت سے دور ہے کیونکہ یہ بات تو اسی وقت صحیح ہو سکتی ہے جب کہ اس مطلب کو بیان کرنے والے حضرت معاذ کا کوئی ایسا قول بھی پیش کریں جس میں حضرت معاذ خود یہ بتائیں کہ ان کی نیت دونوں مرتبہ کیا ہوتی تھی کیونکہ نیت کی حقیقت تو اس وقت تک معلوم نہیں ہوتی جب تک کہ نیت کرنے والا اپنی نیت کے بارے میں خود نہ بتائے کہ اس کی نیت کیا ہے اور ظاہر ہے کہ حضرت معاذ نماز پڑھتے وقت نیت دل میں کرتے ہوئے گے زبان سے اظہار نہیں کرتے ہوں گے جیسا کہ ابن ہمام نے نقل کیا ہے کہ زبان سے نیت کرنا بدعت ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے بارے میں یہ ثابت نہیں ہے کہ وہ زبان سے نیت کرتے تھے پھر یہ بات ملحوظ رہے کہ یہ جملہ " وہی نافلہ" حدیث کے الفاظ نہیں ہیں بلکہ اضافہ ہے جو صحیح روایتوں میں موجود نہیں ہے چنانچہ بعض حضرات نے لکھا ہے کہ حضرت امام شافعی نے اپنے اجتہاد و مسلک کے مطابق اس کا اضافہ کیا ہے پھر یہ مشکوٰۃ کے اصل نسخے میں یہ جگہ خالی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مؤلف مشکوٰۃ نے سنن کے کسی بھی طریق سے یہ جملہ نہیں پایا ۔ علامہ تور پشتی فرماتے ہیں کہ " علماء حدیث کا یہ قول ہے کہ" وھی لہ نافلۃ" حدیث جابر میں غیر محفوظ ہے۔ نفل نماز پڑھنے والے کے پیچھے فرض نماز پڑھنا درست ہے یا نہیں؟ اس مسئلے میں ائمہ کا جو اختلاف ہے اسے پوری وضاحت کہے ساتھ مظاہر حق جدید کی قسط ٩ میں " باب القراۃ فی الصلوٰۃ" کی حدیث نمبر ١٠ کے فائدہ کے ضمن میں بیان کیا جا چکا ہے۔
-