حضرت عمار کی فضیلت

وعن علي رضي الله عنه قال : استأذن عمار على النبي صلى الله عليه و سلم فقال : " ائذنوا له مرحبا بالطيب المطيب " . رواه الترمذي-
اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ بیان کرتے ہیں کہ (ایک دن ) عمار نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری کی اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس کو اندر آنے دو ، پاک وپاکیزہ شخص کو خوش آمدید ۔ " (ترمذی ) تشریح : " طیب " سے تو حضرت عمار کے جوہر ذات کی پاکیزگی کی طرف اشارہ ہے اور مطیب سے ان کی اس پاکیزگی وبزرگی کی طرف اشارہ ہے جو تہذیب اخلاق وصفات کے ذریعہ ان کو حاصل ہوئی ۔ اور ملا علی قاری نے لکھا ہے کہ حضرت عمار کے نفس کی پاکی اور ان کے اخلاق و کردار کی پاکیزگی کو تعریف وتحسین کے نہایت بلیغ انداز میں بیان کرنے کے لئے طیب مطیب کے الفاظ استعمال فرمائے گئے ہیں جیسا کہ سایہ کو مبالغۃ بیان کرنے کے لئے ظل ظلیل کے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں ۔ "
-
وعن عائشة قالت : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " ما خير عمار بين أمرين إلا اختار أرشدهما " رواه الترمذي-
اور حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عمار کو جب کبھی دو کاموں میں سے کسی ایک کام کا اختیار دیا گیا تو اس نے ہمیشہ سخت ترین اور مشکل کام کو اختیار کیا ۔ " (ترمذی ) تشریح : مطلب یہ کہ ان دونوں میں سے جو کام طبیعت پر بہت بھاری اور نفس کے لئے دشوار ہوتا تھا اور اسی اعتبار سے زیادہ فضیلت بھی اسی کام کی ہوتی تھی تو عمار اسی کو اختیار کرتے جیسا کہ سالکان راہ قرب و ولایت کا طریقہ ہے ۔ رہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو اختیاری کاموں میں سے اسی کام کو اختیار کرتے تھے جو سب سے آسان اور ہلکا ہوتا تھا تو اس کا مقصد امت کے لئے آسانی اور سہولت پیدا کرنا ہوتا تھا ۔ ایک روایت میں یہ آیا ہے کہ " عمار کو جب کبھی دو کاموں میں سے کسی ایک کام کا اختیار دیا گیا تو انہوں نے اسی کام کو اختیار کیا ، جو زیادہ آسان ہوتا تھا ، چونکہ ان دونوں روایتوں میں بظاہر تضاد معلوم ہوتا ہے ، اس لئے علما نے لکھا ہے کہ اوپر والی روایت کا معنی تو یہ ہے کہ خود حضرت عمار کس کام کو سخت ترین اور دشوار سمجھتے تھے ، چنانچہ وہ جس کام کو دوسرے کام کی بہ نسبت زیادہ سخت اور دشوار سمجھتے تھے ، اسی کو اختیار کرتے تھے ، اور اس دوسری روایت کو مبنی یہ ہے کہ ان کے علاوہ دوسرا آدمی کس کام کو زیادہ سخت اور دشوار سمجھتا تھا ، یعنی دوسرا آدمی تو یہ سمجھتا تھا کہ عمار نے جس کام کو اختیار کیا ہے وہ آسان اور سہل ہے لیکن حقیت میں حضرت عمار کے نزدیک وہی کام زیادہ سخت اور دشوار ہوتا تھا ۔ "
-