حضرت عثمان نماز فجر میں سورت یوسف کثرت سے پڑھتے تھے

وَعَنِ الْفَرَافَصَۃِ بْنِ عُمَیْرِ الْحَنَفِیِّ قَالَ مَا اَخَذْتُ سُوْرَۃَ یُوْسُفَ اِلَّا مِنْ قِرَاءَ ۃِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ اِیَّا ھَا فِی الصُّبْحِ مِنْ کَثْرَۃِ مَا کَانَ یُرَدِّدُھَا۔ (رواہ مالک)-
" اور حضرت فرافصہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ ( فرافصہ مدینہ طیبہ کے رہنے والے اور مشہور تابعی ہیں۔ آپ قبیلہ بنی حنفیہ کی طرف نسبت کی وجہ سے حنفی کہے جاتے ہیں۔ ) ابن عمیر حنفی (تابعی) فرماتے ہیں کہ میں نے سورت یوسف، حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے (سن سن کر) یاد کی ہے کیونکہ وہ اس سورت کو فجر کی نماز میں کثرت سے پڑھا کرتے تھے۔" (مالک) تشریح اگر یہ اشکال پیدا ہو کہ علماء تو نمازوں میں کسی خاص متعین سورت پر مداوت کرنے کو مکروہ لکھتے ہیں تاکہ قرآن کی بقیہ سورتوں کا ترک کرنا لازم نہ آئے حالانکہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ معمول اس کے منافی ہے تو اس کا جواب یہ ہوگا کہ علماء جو مکروہ لکھتے ہیں اس سے انکی مراد تمام نمازوں میں کسی متعین سورت پر مداومت کرنا ہے اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جو معمول ثابت ہے وہ ایسا نہیں ہے بلکہ وہ تو صرف فجر کی نماز ہی میں سورت یوسف بہت کثرت سے پڑھتے تھے تمام نمازوں میں نہیں۔ بعض علماء نے سورت یوسف کا یہ اثر نقل کیا ہے کہ سورت یوسف کے پڑھنے پر مداومت کرنا شہادت کی سعادت حاصل ہونے کا سبب ہے جس کا واضح ثبوت خود حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ذات گرامی ہے کہ آپ شہید ہوئے۔
-
وَعَنْ عَامِرِ ابْنِ رَبِیْعَۃَ قَالَ صَلَّیْنَا وَرَاءَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ الصُّبْحَ فَقَرَأَ فِیْھِمَا بِسُوْرَۃِ یُوْسُفَ وَ سُوْرَۃِ الْحَجِّ قِرَاءَ ۃً بَطِیْئَۃً قِیْلَ لَہُ اِذَا لَقْدَ کَانَ یَقُوْمُ حِیْنَ یَطْلُعُ الْفَجْرُ قَالَ اَجَلْ۔ (رواہ امام مالک)-
" اور حضرت عامر ابن ربیعہ ( حضرت عامر آل خطاب کے حلیف تھے۔ آپ کی کنیت ابوعبداللہ ہے آپ بدر اور دوسرے غزوات میں شریک رہے اور ٣٢ھ میں آپ کی وفات ہوئی۔ ) فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) ہم نے امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پیچھے صبح کی نماز پڑھی۔ انھوں نے دونوں رکعتوں میں سورت یوسف اور سورت حج کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھا۔ کسی نے حضرت عامر سے پوچھا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فجر کے طلوع ہوتے ہی (نماز کے لیے) کھڑے ہو جاتے ہوں گے؟ (یعنی وہ اول وقت میں نماز شروع کر دیتے ہوں گے کیونکہ اتنی طویل قرات جب ہی ممکن ہے) انھوں نے فرمایا کہ " ہاں۔" (مالک) تشریح فجر کی نماز کے لیے اول وقت کھڑے ہو جانا متفقہ طور پر سب کے نزدیک جائز ہے لہٰذا یہ حدیث جواز پر محمول ہے مختار یعنی اولیت پر نہیں۔ اس لیے کہ اس حدیث سے کسی طرح بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمیشہ اول وقت کھڑے ہوتے تھے۔
-
وَعَنْ عَمْرِوبْنِ شُعَیْبٍ عَنْ اَبِیْہٖ عَنْ جَدِّہٖ قَالَ مَا مِنَّ المُفَصَّلِ سُوْرَۃٌ صَغِیْرَۃٌ وَلَاکَبِیْرَۃٌ اِلَّا قَدْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم یَؤُمُّ بِھَا النَّاسِ فِی الصَّلَاِۃ المَکْتُوْبَۃِ۔ (رواہ مالک)-
" اور حضرت عمرو ابن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا ( حضرت عبدا اللہ ) سے نقل کرتے ہیں کہ وہ فرماتے ہیں کہ مفصل کی کوئی بھی چھوٹی بڑی سورت ایسی نہیں ہے جو میں نے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم سے لوگوں کو فرض نماز پڑھاتے وقت نہ سنی ہو۔" (مالک) تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان جواز کے طور پر مفصل کی سورتیں مختلف اوقات میں نمازوں میں پڑھ کر لوگوں کو بتا دیا کہ نماز میں ہر سورت کا پڑھنا جائز ہے۔
-
وَعَنْ عَبْدِا ﷲِ بْنِ عُتْبَۃَ بْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ قَرَأَرَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم فِی صَلَاۃِ الْمَغْرِبِ بِحٰم ا لدُّخَانِ رَوَاہُ النَّسَائِیُّ مُرْسَلًا۔-
" اور حضرت عبدا اللہ ابن عتبہ ابن سعود (تابعی) فرماتے ہیں کہ آقائے نا مدار صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب کی نماز میں سورت حم دخان پڑھی ہے اس روایت کو نسائی نے مرسلا نقل کیا ہے (کیونکہ عبدا اللہ ابن عتبہ تابعی ہیں)۔" تشریح یہاں دونوں ہی احتمال ہیں کہ یا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب کی دونوں رکعتوں میں حم دخان پوری سورت پڑھی یا پھر یہ کہ اس کا کچھ حصہ تھوڑا تھوڑا کر کے دونوں رکعتوں میں پڑھا۔ وا اللہ اعلم
-