TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
عشرہ مبشرہ کے مناقب کا بیان
حضرت ابوعبیدہ کی فضیلت
وعن ابن أبي مليكة قال : سمعت عائشة وسئلت : من كان رسول الله صلى الله عليه و سلم مستخلفا لو استخلفه ؟ قالت : أبو بكر . فقيل : ثم من بعد أبي بكر ؟ قالت : عمر . قيل : من بعد عمر ؟ قالت : أبو عبيدة بن الجراح . رواه مسلم-
اور حضرت ابن ابی ملیکہ (تابعی ) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ سے اس وقت سنا جب ان سے پوچھا گیا کہ (فرض کیجئے ) اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خلافت کے لئے (صراحتہ ) کسی کو نامزد فرماتے تو آپ کی نگاہ انتخاب کس پر جاتی ؟ حضرت عائشہ نے جواب دیا : حضرت ابوبکر پر! پھر ان سے پوچھا گیا : حضرت ابوبکر کے بعد کس کو نامزد فرماتے ؟ حضرت عائشہ نے جواب دیا : عمر کو پھر پوچھا گیا اور حضرت عمر کے بعد کس کا نمبرآتا ؟ حضرت عائشہ بولیں : ابوعبیدہ بن الجراح کا ۔" (مسلم ) تشریح : ابوعبیدہ چونکہ " امین الامت " تھے اور منصب کی ذمہ داریاں سنبھالنے کی اہلیت ولیاقت رکھتے تھے اس لئے ان کا مستحقین خلافت میں شمار ہونا عین موزوں تھا چنانچہ وصال نبوی کے بعد جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین اور خلیفہ کے انتخاب کا مرحلہ درپیش تھا حضرت ابوبکر نے فرمایا تھا کہ !بار خلافت اٹھانے کے لئے مجھے آگے کیوں کرتے ہو تمہارے درمیان یہ عمر ہیں علی ہیں یہ ابوعبیدہ بن الجراح ہیں ان میں سے جس کو چاہو خلیفہ منتخب کرلو لیکن حل وعقد اور عمائدین ملت کا کہنا تھا کہ آپ سے زیادہ اہل ولائق اور کون ہوسکتا ہے ، جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض الموت میں ہماری دینی قیادت (یعنی نماز کی امامت کے لئے ) آپ ہی کو آگے کیا تھا تو پھر کس کی مجال ہے کہ ہماری دنیاوی وملی قیادت کے لئے آپ کو ترجیح نہ دے بہر حال اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرت عائشہ اس نظریہ کی حامل تھیں کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے بعد باقی اصحاب شوریٰ میں حضرت ابوعبیدہ بن الجراح ہی خلافت کے سب سے زیادہ اہل اور مستحق تھے ۔
-
وعن حذيفة قال : جاء أهل نجران إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم فقالوا : يا رسول الله ابعث إلينا رجلا أمينا . فقال : " لأبعثن إليكم رجلا أمينا حق أمين " فاستشرف لها الناس قال : فبعث أبا عبيدة بن الجراح . متفق عليه-
اور حضرت حذیفہ بن الیمان (جو کبار صحابہ میں سے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے محرم راز تھے ) کہتے ہیں کہ نجران کے لوگوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !ہمارے پاس (حاکم وقاضی بنا کر ) ایسے شخص کو بھیجئے جو امانت دار ہو یعنی ہمارے حقوق میں کوئی خیانت نہ کرے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یقینا میں ایک ایسے شخص کو (حاکم یاقاضی بنا کر تمہارے ہاں بھیجوں گا جو امین ہے اور اس لائق ہے کہ امانت دار کہا جائے ۔ (یہ سن کر ) لوگ اس شرف کے حصول کی تمنا اور انتظار کرنے لگے (کہ دیکھیں کون شخص اس منصب کا شرف وامتیاز حاصل کرتا ہے ) حضرت حذیفہ کہتے ہیں کہ : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوعبیدہ بن الجراح کو بھیجا ۔" (بخاری ومسلم ) تشریح : " نجران " یمن میں ایک جگہ کا نام ہے جس کو ١٠ھ میں فتح کیا گیا تھا اور ایک قول یہ ہے کہ " نجران " حجاز اور شام کے درمیان واقع ایک جگہ کا نام ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تمنا اور انتظار کرنے لگے " اس تمنا اور اظہار کا تعلق جاہ طلبی کے جذبہ اور حصول منصب کی خواہش سے ہرگز نہیں تھا بلکہ اس تمنا واشتیاق کی بنیاد صفت امانت سے متصف قرار پانے کی طلب وخواہش تھی ۔
-