حسنین سے کمال محبت کا اظہار

وعن بريدة قال : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم يخطبنا إذ جاء الحسن والحسين عليهما قميصان أحمران يمشيان ويعثران فنزل رسول الله صلى الله عليه و سلم من المنبر فحملهما ووضعهما بين يديه ثم قال : " صدق الله [ إنما أموالكم وأولادكم فتنة ] نظرت إلى هذين الصبيين يمشيان ويعثران فلم أصبر حتى قطعت حديثي ورفعتهما " . رواه الترمذي وأبو داود والنسائي-
اور حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ (ایک دن ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سامنے خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ اچانک حسن اور حسین آ گئے وہ دونوں سرخ کرتے پہنے ہوئے تھے اور (کم سنی ناطاقتی کے سبب ) اس طرح چل کر آ رہے تھے کہ گر گر پڑتے تھے چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم (ان کو دیکھ کر منبر سے اتر آئے اور ان دونوں کو اپنی گود میں اٹھا لیا اور پھر ان کو اپنے پاس بٹھا کر فرمایا : اللہ تعالیٰ نے سچ کہا ہے کہ ا یت (انما اموالکم واولادکم فتنۃ) میں نے ان دونوں بچوں کو دیکھا (کہ ان سے چلا نہیں جا رہا ہے اور ) گرتے پڑتے چلے آ رہے ہیں تو (ان کی محبت میں ) مجھ کو صبر نہ ہو سکا اور میں نے اپنی بات دینی وعظ و نصیحت اور بیان احکام و مسائل کا سلسلہ منقطع کیا اور منبر سے اتر کر ) ان کو گود میں اٹھا لیا ۔ " (ترمذی ، ابوداؤد ، نسائی ) تشریح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ کے درمیان منبر سے اتر کر حسنین کو اٹھانا دراصل ایک ایسا عمل تھا جس کا تحرک شفقت و ترحم اور رقت و محبت کا وہ جذبہ تھا جو ان شاہزادوں کو اس حال میں دیکھ کر قلب نبوت میں امنڈ آیا تھا چونکہ اولاد اور بچوں پر شفقت و مہربانی کرنا ایک مستحسن و مستحب اور پسندیدہ حق چیز ہے اور خطبہ کے دوران خطیب کا کچھ لمحات کے لئے کسی نیک عمل کی طرف متوجہ ہو جانا جائز ہے اس خطبہ کے دوران آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل کو تداخل فی العبادات کی ایک قسم کہا جائے گا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس عمل کو جو عذر بیان فرمایا ، وہ ایک تو کسر نفسی کے تحت تھا ۔ دوسرے سامعین و حاضرین کو متنبہ کرنا بھی مقصود تھا کہ میرے اس عمل کو مستقل میں دلیل بنا کر خود کو عادی نہ بنا لیں اور یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ جب میں نے ایسا کیا ہے تو ہر شخص جب چاہے ایسا کر سکتا ہے ۔
-
وعن يعلى بن مرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " حسين مني وأنا من حسين أحب الله من أحب حسينا حسين سبط من الأسباط " رواه الترمذي-
اور حضرت یعلی بن مرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حسین رضی اللہ عنہ مجھ سے ہے اور میں حسین رضی اللہ عنہ سے ہوں اور جس شخص نے حسین سے محبت رکھی اس نے اللہ تعالیٰ سے محبت رکھی حسین اسباط میں سے ایک سبط ہے ۔ " (ترمذی ) تشریح ایک شارح نے لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جس وقت یہ الفاظ ارشاد فرما رہے تھے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گویا نور نبوت سے اس المیہ کے پہلے ہی ادراک کر لیا تھا جو تقریبا نصف صدی بعد یزیدیوں کی طرف سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی صورت میں پیش آنے والا تھا ۔ لہذا آپ نے اس ارشاد گرامی میں خاص طور صرف حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا اور واضح کیا کہ میں اور میرا حسین رضی اللہ عنہ ایک جان دو قالب ہیں ہم دونوں کے درمیان ایسا جسمانی و روحانی قرب و اتصال ہے کہ جس طرح مجھ سے محبت رکھنا واجب ہے ۔ اسی طرح حسین سے محبت رکھنا واجب اور جس طرح مجھ سے مخالفت و مخاصمت رکھنا اور مجھ سے لڑنا حرام ہے ۔ اسی طرح حسین سے مخالفت و مخاصمت رکھنا اور حسین سے لڑنا حرام ہے ۔ " اس نے اللہ تعالیٰ سے محبت رکھی " کیونکہ حسین سے محبت رکھنا رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھنا اور رسول سے محبت رکھنا اللہ تعالیٰ سے محبت رکھنا ہے واضح ہو کہ احب اللہ میں اگر ہ کو زبر کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کا ترجمہ وہی ہوگا جو اوپر مذکور ہوا اور اگر ہ کو پیش کے ساتھ پڑھا جائے تو ترجمہ یہ ہوگا کہ (جس شخص نے حسین سے محبت رکھی ) اس سے اللہ تعالیٰ محبت رکھے گا ۔ حسین اسباط میں سے ایک سبط ہے " یعنی حسین میرا بیٹا ہے " ۔ سبط (س کے زیر کے ساتھ ) کا ماخذ اصل میں سبط ہے اور سبط اس درخت کو کہتے ہیں جس کی جڑ تو ایک ہو مگر اس کی شاخیں بہت ہوں ۔ پس گویا درخت کی مانند ہو اور اولاد اس کی شاخوں کی مانند ۔ بعض حضرات نے سبط من الاسباط کے معنی یہ لکھے ہیں کہ : حسین امتوں میں سے ایک امت ہے خیر و بھلائی اور شرف و سعادت کے اعتبار سے ایک پوری امت کے برابر ہے ایک شارح لکھتے ہیں سبط کا لفظ ولد کے معنی میں ہے اس صورت مذکورہ میں جملہ کا ترجمہ یہ ہوگا کہ : حسین میری اولاد ہے سبط کے ایک معنی قبیلہ کے بھی آتے ہیں ۔ جیسا کہ قرآن میں ایک آیت ہے (وَقَطَّعْنٰهُمُ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ اَسْبَاطًا اُمَمًا) 7۔ الاعراف : 160) (یعنی ! اور ہم نے ان کو بارہ خاندانوں یا قبیلوں میں تقسیم کر دیا ) اس معنی کی مناسبت سے کہا جا سکتا ہے کہ اس جملہ سے شاید یہ مراد ہو کہ حسین ایک قبیلہ اور بڑی نسل کے مورث بنیں گے ، اللہ تعالیٰ ان کی اولاد میں بہت برکت دے گا اور ان کی اولاد سلسلہ در سلسلہ نہ صرف یہ کہ بہت پھیلے گی بلکہ قائم و باقی رہے گی چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی نسل بہت پھیلی ، بہت بڑھی ، ان کی اولاد میں بے شمار صحیح النسب سادات موجود ہیں ۔ حضرت شیخ عبدالحق دہلوی اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں کہ سبط س کے زیر اور ب کے جزم کے ساتھ ) کے معنی ہیں : اولاد (یعنی بیٹے یا بیٹی ) کی اولاد ۔ اسباط اسی کی جمع ہے ۔ جیسا کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کی ساری اولاد کو " اسباط " کہا جاتا ہے ۔ در اصل یہودیوں کے لئے " اسباط" کا لفظ معنی مستعمل ہوتا ہے جس معنی میں عرب کے لئے قبیلہ کا لفظ ۔ اور سبط ب کے زبر کے ساتھ ) کے معنی اس درخت کے ہیں جس کی ڈالیاں اور شاخیں بہت ہوں اور جڑ ایک ہو ۔ پس حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو سبط سے تعبیر کرنا اس طرف اشارہ ہے ان کی نسل سے بے شمار لوگ پیدا ہوں گے ۔
-