TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
جنگ کرنے کا بیان
حبشیوں کے بارے میں ایک ہدایت
وعن عبد الله بن عمرو عن النبي صلى الله عليه وسلم قال اتركوا الحبشة ما تركوكم فإنه لا يستخرج كنز الكعبة إلا ذو السويقتين من الحبشة . رواه أبو داود-
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ تم حبشیوں کو ان کے حال پر چھوڑ دو اور ان سے کسی قسم کا تعرض نہ کرو تاکہ وہ تم سے کچھ نہ کہیں اور تم سے تعرض نہ کریں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ کعبہ کا خزانہ ایک حبشی ہی نکالے گا جس کی دونوں پنڈلیاں چھوٹی چھوٹی ہوں گی۔ ( ابوداؤد ) تشریح حدیث کے آخر میں جس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس کا تعلق آخر زمانہ سے ہے جبکہ قیامت بالکل قریب ہوگی اس وقت اہل حبشہ کو غلبہ حاصل ہوگا اور ان کا بادشاہ اپنا لشکر لے کر مکہ پر چڑھ آئے گا اور کعبۃ اللہ کو ڈھا دے گا اور اس خزانہ کو نکال لے گا جو خانہ کعبہ کے نیچے مدفون ہے ، چنانچہ حدیث میں کعبہ کے خزانہ کو نکالنے والے جس حبشی کا ذکر کیا گیا ہے اس سے یا تو حبشہ کا بادشاہ مراد ہے یا پھر لشکر مراد ہے نیز خزانہ سے مراد وہ پورا خزانہ ہے جو کعبہ اقدس کے نیچے مدفون ہے اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ خزانہ سے مراد وہ مال اسباب ہے جو نذر کے طور پر وہاں آتا ہے اور خانہ کعبہ کا خادم اس کو جمع کرتا ہے۔ واضح رہے کہ یہاں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ ایک حبشی خانہ کعبہ کا خزانہ نکال لے گا یا ایک اور روایت میں یوں فرمایا گیا ہے کہ ایک حبشی خانہ کعبہ کو تباہ وبرباد کر دے گا، تو یہ بات قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کے ارشاد وحرما آمنا (امن وامان والاحرم) کے خلاف اور معارض نہیں ہے کیونکہ حبشیوں کے ذریعہ خانہ کعبہ کی تخریب و تباہی کا یہ واقعہ قیامت کے قریب پیش آئے گا جبکہ روئے زمین پر کوئی شخص اللہ اللہ کہنے والا نہیں رہے گا۔ اور امنا کے معنی یہ ہیں کہ کعبہ اقدس قیامت تک مامون ومحفوظ رہے گا، لہٰذا جب روئے زمین پر اللہ اللہ کہنے والوں تک کا کوئی اثر موجود نہ رہے گا اور جب قیامت ہی آ جائے گی تو پھر اور کیا چیز باقی رہ جائے گی کہ کعبہ بھی باقی رہے۔ ویسے یہ بات بھی بجائے خود وزن دار ہے۔ لیکن بعض حضرات نے ایک اور وضاحت بیان کی ہے اور اس کو زیادہ صحیح کہا ہے، اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ جو امن والا حرم قرار دیا ہے تو اس کے غالب احوال کے اعتبار سے قرار دیا ہے یعنی خانہ کعبہ کی اصل حقیقت تو یہی رہے گی کہ وہ با امن حرم کے طور پر ہمیشہ ہر قسم کی تخریب وپلیدگی سے محفوظ ومامون رہے گا۔ مگر کبھی کبھار ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی ایسا سخت حادثہ پیش آ جائے جس سے اس کی تخریب کاری ہو چنانچہ کعبہ کی تاریخ میں ایسے حادثات پہلے بھی پیش آ چکے ہیں جنہوں نے اس کو نقصان پہنچایا جیسا کہ حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں عبدالملک بن مروان کی خلافت کی طرف سے اہل مکہ کے خلاف حجاج بن یوسف کے حملے کے دوران خانہ کعبہ کی سخت تخریب ہوئی یا قرامطہ کا واقعہ پیش آیا کہ اس نے خانہ کعبہ کو سخت نقصان پہنچایا ۔ بس اگر زمانہ آئندہ میں بھی کعبہ کی تخریب کا پیش آنے والا کوئی واقعہ پیش آئے تو وہ واقعہ حرما امنا کے خلاف نہیں ہوگا یا یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ با امن حرام قرار دینے سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل مکہ کو یہ حکم فرمایا کہ جو بھی شخص اس مقدس شہر اور حرم محترم میں آئے اس کو امن وعافیت عطا کرو اور یہاں کسی کے ساتھ بھی تعرض نہ کرو، چنانچہ منقول ہے کہ جب زندیقوں کی جماعت قرامطہ کا سردار فساد و تباہی مچا چکا اور لوگوں کے قتل وغارت گری اور شہریوں کو لوٹ مار سے فارغ ہوا تو ایک دن کہنے لگا کہ اللہ کا یہ فرمان کہاں گیا کہ ا یت (ومن دخلہ کان امنا) (یعنی جو بھی شخص اس حرم محترم میں داخل ہوا اس کو امن وعافیت حاصل ہو گئی ؟ ) اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے ایک شخص کو جواب دینے کی توفیق عطا فرمائی ، اس نے کہا کہ قران کریم کے اس ارشاد کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی شخص کبھی بھی مکہ و اہل مکہ اور خانہ کعبہ کی تخریب اور نقصان پہنچانے میں کامیاب نہیں ہو سکتا بلکہ اس فرمان الٰہی کی مراد یہ حکم دینا ہے کہ جو شخص حرم محترم میں داخل ہو جائے اس کو امن وعافیت عطا کرو اور اس میں لوٹ مار اور قتل وغارت گری کے ذریعے کسی کے ساتھ تعرض نہ کرو۔
-
وعن رجل من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم قال دعوا الحبشة ما ودعوكم واتركوا الترك ما تركوكم . رواه أبو داود والنسائي-
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ میں سے ایک شخص سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ تم حبشیوں کو ان کے حال پر چھوڑ دو جب تک کہ وہ تمہیں تمہارے حال پر چھوڑے رکھیں اور ترکوں کو بھی ان کے حال پر چھوڑ دو جب تک کہ وہ تمہیں تمہارے حال پر چھوڑے رکھیں ۔، (ابو داؤد ، نسائی) تشریح یہاں ایک یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن نے تو یہ حکم دیا ہے کہ ا یت (وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِيْنَ كَا فَّةً ) 9۔ التوبہ : 36) (یعنی مشکرین سے قتال کرو وہ جہاں کہیں بھی ہوں) پس جب اس حکم میں عموم ہے تو حبشیوں اور ترکوں کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ کیوں فرمایا ہے کہ تم ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو ، یعنی ان پر حملہ نہ کرو اور ان کے ملکوں اور شہروں پر چڑھائی سے گریز کرو۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حبشہ اور ترک کا معاملہ اس آیت کے عمومی حکم سے خارج اور مخصوص استثنائی نوعیت رکھتا تھا کیونکہ جغرافیائی پوزیشن کے اعتبار سے یہ دونوں ملک اس زمانے کی اسلامی طاقت کے مرکز سے بہت دور دراز فاصلے پر واقع تھے اور اسلامی چھاؤ نیوں اور ان ملکوں کے درمیان دشت وبیاباں کا ایک ایسا دشوار گزار سلسلہ حائل تھا جس کو عام حالات میں عبور کرنا ہر ایک کے لئے ممکن نہیں تھا۔ لہٰذا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بنا پر مسلمانوں کو حکم دیا کہ ان دونوں ملکوں کے خلاف کوئی اقدامی کاروائی نہ کی جائے اور ان لوگوں سے اس وقت تک کوئی تعرض نہ کیا جائے جب تک کہ وہ خود تم سے چھیڑ نہ نکا لیں، پس اگر وہ تمہارے خلاف جارحیت کا ارتکاب کریں اور اپنی فوج وطاقت جمع کر کے مسلمانوں کے شہروں اور اسلامی مراکز پر چڑھ آئیں تو اس صورت میں ان کے خلاف نبرد آزما ہو جانا اور ان کے ساتھ جنگ وقتال کرنا فرض ہوگا۔ یا ایک بات یہ کہی جا سکتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو یہ حکم دیا تھا کہ وہ اسلام کے ابتدائی زمانہ کا واقعہ ہے جب کہ اسلام اور مسلمانوں کے پاس اتنی طاقت اور اس قدر ذرائع نہیں تھے کہ وہ اتنے دور دراز علاقوں تک اسلام کی پیش رفت کو بڑھاتے ، چنانچہ بعد میں جب مذکورہ ا یت نازل ہوئی اور اسلام کو طاقت میسر ہوگئی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ حکم منسوخ قرار پا گیا۔
-