حالت مسافرت کی موت کی فضیلت

وعن ابن عباس : أن النبي صلى الله عليه و سلم عاد رجلا فقال له : " ما تستهي ؟ " قال : أشتهي خبز بر . قال النبي صلى الله عليه و سلم : " من كان عنده خبز بر فليبعث إلى أخيه " . ثم قال النبي صلى الله عليه و سلم : " إذا اشتهى مريض أحدكم شيئا فليطعمه " . رواه ابن ماجه-
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک ایسے شخص کی وفات مدینہ میں ہوئی جو مدینہ ہی میں پیدا ہوا تھا چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی اور پھر فرمایا! کہ کاش! یہ شخص اپنے پیدا ہونے کی جگہ کے علاوہ کسی اور جگہ مرا ہوتا! صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! یہ کیوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ جو شخص اپنے وطن کے علاوہ کسی دوسری جگہ مرتا ہے تو اس کے وطن سے لیکن اس کے مرنے کے مقام تک کی جگہ اس کے لئے جنت میں پیمائش کی جاتی ہے۔ (نسائی ، ابن ماجہ) تشریح مطلب یہ ہے کہ جو شخص وطن سے دور حالت سفر میں مرتا ہے تو اس کے وطن اور اس کے مرنے کی جگہ تک کے درمیان جتنی مسافت ہوتی ہے اس کے بقدر جگہ اس کو جنت میں ملتی ہے لین اس بارہ میں صحیح یہ معلوم ہوتا ہے کہ سفر سے مراد صرف طاعت یعنی جہاد وغیرہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ اجر و انعام اس شخص کو ملتا ہے جو جہاد کے لئے یا دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے یا اسی قسم کے دوسرے بامقصد و مطلوب کام کے لئے وطن سے دور مرا ہو۔
-
وعن عبد الله بن عمرو قال ك توفي رجل بالمدينة ممن ولد بها فصلى عليه النبي صلى الله عليه و سلم فقال : " يا ليته مات بغير مولده " . قالوا ولم ذاك يا رسول الله ؟ قال : " إن الرجل إذا مات بغير مولده قيس له من مولده إلى منقطع أثره في الجنة " . رواه النسائي وابن ماجه-
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " حالت مسافرت کی موت شہادت ہے" ۔ (ابن ماجہ)
-
وعن ابن عباس قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " موت غربة شهادة " . رواه ابن ماجه-
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " جو شخص بحالت مرض مرتا ہے تو وہ شہید مرتا ہے اور قبر کے فتنوں سے بچایا جاتا ہے نیز(ہر صبح شام اسے جنت سے رزق دیا جاتا ہے" ۔ (ابن ماجہ، بیہقی) تشریح مشکوۃ کے صحیح نسخوں میں لفظ " مریضا " ہی لکھا ہوا ہے لیکن بعض نسخوں میں تغیر کر کے " مریضا " کے بجائے لفظ " غریبا " لکھ دیا گیا ہے لیکن صحیح ابن ماجہ میں لفظ " مرابطا " منقول ہے۔ اسی لیے میرک رحمہ اللہ علیہ نے مشکوۃ کے اپنے نسخہ کے حاشیہ میں یہ الفاظ " صوابہ مرابطا " (یعنی صحیح لفظ مرابطا ہی ہے) لکھ کر اس کے نیچے یہ لکھا ہے کہ کذا فی سنن ابن ماجہ فی باب ما جاء من مات مرابطا مات شہیدا۔ پھر یہ کہ لفظ مریضا کے بارے میں علماء نے تو لکھا ہے کہ مرض سے مراد عام مرض ہے جب کہ بعض حضرات نے خاص مرض جیسے استسقاء مراد لیا ہے۔ لیکن ملا علی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہاں ان قیود کی ضرورت نہیں ہے بلکہ یہ کہا جائے کہ یہاں راوی سے چوک ہو گئی ہے کیونکہ حدیث کے صحیح الفاظ من مات مرابطا ہیں نہ کہ من مات مریضاً۔
-