حالت سفر میں روزہ کی معافی

عن أنس بن مالك الكعبي قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إن الله وضع عن المسافر شطر الصلاة والصوم عن المسافر وعن المرضع والحبلى " . رواه أبو داود والترمذي والنسائي وابن ماجه-
حضرت انس بن مالک کعبی رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مسافر کے لیے آدھی نماز موقوف کر دی ہے اسی طرح مسافر دودھ پلانے والی اور حاملہ عورت کے لیے روزہ معاف کر دیا ہے (ابو داؤد، ترمذی، نسائی ، ابن ماجہ) تشریح آدھی نماز موقوف کر دی ہے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مسافر کے لیے بھی پہلے چار رکعت نماز فرض تھی پھر بعد میں دو رکعت رہ گئی بلکہ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسافر کے لیے ابتداء ہی سے آدھی نماز فرض فرمائی ہے کہ وہ چار رکعت والی نماز دو رکعت پڑھے اور دو رکعت کی قضا واجب نہیں ہے اسی طرح روزہ کی معافی کا مطلب یہ ہے کہ حالت سفر میں روزہ رکھنا واجب نہیں ہے۔ مگر سفر پورا ہونے کے بعد مسافر جب مقیم ہو جائے گا تو اس روزہ کی قضا اس پر ضروری ہو گی۔ دودھ پلانے والی اور حاملہ عورت کے بارہ میں پہلے بھی بتایا جا چکا ہے کہ ان کے لیے بھی جائز ہے کہ اگر روزہ کی وجہ سے بچہ یا خود ان کو تکلیف و نقصان پہنچنے کا گمان غالب ہو تو وہ روزہ نہ رکھیں لیکن عذر ختم ہو جانے کے بعد ان پر بھی قضاء واجب ہو گی فدیہ لازم نہیں ہو گا حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا یہی مسلک ہے لیکن حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد کے مسلک کے مطابق ان پر فدیہ بھی واجب ہے۔ اگر سفر میں آسانی اور آرام ہو تو روزہ رکھ لینا مستحب ہے حضرت سلمہ بن محیق رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس شخص کے پاس ایسی سواری ہو جو اسے منزل تک آسانی اور آرام کے ساتھ پہنچا دے (یعنی اس کا سفر بامشقت نہ ہو بلکہ پر سکون اور پر راحت ہو) تو اسے چاہئے کہ جہاں بھی رمضان آئے روزہ رکھ لے۔ (ابو داؤد) تشریح یہ حکم استحباب اور فضیلت کے طور پر ہے ورنہ تمام علماء کے نزدیک متفقہ طور پر مسئلہ یہی ہے کہ حالت سفر میں روزہ نہ رکھنا جائز ہے خواہ سفر کتنا ہی پر سکون اور پر راحت کیوں نہ ہو ویسے بھی یہ حدیث ضعیف ہے۔
-
عن جابر : أن رسول الله صلى الله عليه و سلم خرج عام الفتح إلى مكة في رمضان فصام حتى بلغ كراع الغميم فصام الناس ثم دعا بقدح من ماء فرفعه حتى نظر الناس إليه ثم شرب فقيل له بعد ذلك إن بعض الناس قد صام . فقال : " أولئك العصاة أولئك العصاة " . رواه مسلم-
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فتح مکہ کے سال رمضان کے مہینہ میں مکہ کی طرف چلے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روزہ رکھا۔ یہاں تک کہ کراع الغمیم (جو مکہ اور مدینہ کے درمیان عسفان کے قریب ایک جگہ کا نام ہے) پہنچے تو دوسرے لوگ بھی روزہ سے تھے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیالہ میں پانی منگوایا اور اسے (ہاتھ میں لے کر اتنا) اونچا اٹھایا کہ لوگوں نے دیکھ لیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ پانی پی لیا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا گیا کہ بعض لوگوں نے روزہ رکھا (یعنی انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی متابعت میں روزہ توڑا نہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا وہ لوگ پکے گنہگار ہیں۔ وہ لوگ پکے گنہگار ہیں۔ (مسلم) تشریح وہ لوگ پکے گنہگار ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی انتہائی ناراضگی کے اظہار کے طور پر یہ الفاظ دو مرتبہ ارشاد فرمائے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پانی کو اپنے ہاتھوں میں اونچا اٹھا کر اس لیے پیا تھا تاکہ دوسرے لوگ بھی مطلع ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ نے سفر کی حالت میں روزہ نہ رکھنے کی جو اجازت عطا فرمائی ہے اس بارہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی و متابعت کریں مگر انہوں نے روزہ رکھ کر گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فعل کی مخالفت کی اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے عطا کی گئی رخصت (اجازت و آسانی) قبول نہ کی اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے اس طرز عمل پر برہمی کا اظہار فرماتے ہوئے اس طرح فرمایا کہ گویا سفر کی حالت میں روزہ رکھنا حرام ہے۔
-