TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
کھانوں کے ابواب
حالت اضطرار کا مسئلہ
عن الفجيع العامري أنه أتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال : ما يحل لنا من الميتة ؟ قال : " ما طعامكم ؟ " قلنا : نغتبق ونصطبح قال أبو نعيم : فسره لي عقبة : قدح غدوة وقدح عشية قال : " ذاك وأبي الجوع " فأحل لهم الميتة على هذه الحال . رواه أبو داود-
حضرت فجیع عامری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ (ایک دن ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ " (حضرت ! یہ بتائیں کہ ) ہمارے لئے مردار میں سے کیا حلال ہے ؟ " آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔" (پہلے یہ بتاؤ کہ ) تم لوگوں کو کھانا کس مقدار میں ملتا ہے ؟ " ہم نے عرض کیا کہ " ہم کو ایک پیالہ دودھ کا شام کو اور ایک پیالہ دودھ کا صبح کو ملتا ہے ۔" (حدیث کے راوی ابونعیم کہتے ہیں کہ (میرے استاد و شیخ حضرت عقبہ نے نغتبق اور نصطبح کی ) یہی وضاحت کی ہے کہ " ایک پیالہ دودھ کا صبح کو اور ایک پیالہ دودھ شام کو ۔" (بہرحال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (فجیع کا جواب کر) فرمایا کہ " کھانے کی یہ مقدار، اپنے باپ کی قسم ، بھوک کو واجب کرتی ہے یعنی صبح و شام محض ایک ایک پیالہ دودھ کا ملنا بھوک کو ختم کر کے انسانی زندگی کی بقا کا ذریعہ نہیں بن سکتا ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صورت میں ان کے لئے مردار کو حلال قرار دیا ۔" (ابوداؤد ) تشریح غذا، انسان کی زندگی کو باقی رکھنے کے لئے ایک ضروری چیز ہے انسان کو غذا کا ملنا یا اتنی مقدار میں ملنا جس سے نہ صرف یہ کہ بھوک کو ختم نہ کیا جا سکتا ہو بلکہ زندگی کا وجود بھی خطرہ میں پڑ جائے ایک ایسی صورت حال پیدا کر دیتا ہے جس کو شریعت کی اصطلاح میں " حالت اضطرار " سے تعبیر کیا جاتا ہے ، حالت اضطرار میں شریعت یہ اجازت دیتی ہے کہ انسان اگر کسی حرام چیز کو کھا کر اپنی زندگی بچا سکتا ہے تو وہ کھا لینی چاہئے، چنانچہ سائل نے یہ سوال کر کے ہمارے لئے مردار میں سے کیا حلال ہے ؟ " اصل میں یہی معلوم کرنا چاہا تھا کہ وہ کون سی صورت حلال ہے جس پر " حالت اضطرار " کا اطلاق کیا جائے کہ اس صورت میں مردار یا کسی بھی حرام چیز کو کھایا جا سکتا ہے، یعنی اضطرار کی حد کیا ہے اور بھوک کی نوعیت کس درجہ کی ہو کہ جس کی وجہ سے حرام چیز کا کھانا مباح ہو سکتا ہے؟ اگرچہ سائل نے سوال کے لئے جو اسلوب و الفاظ اختیار کئے ہیں ان کے ظاہری مفہوم سے یہ واضح ہوتا ہے کہ انہوں نے گویا مردار کے کھانے کے بارے میں دریافت کیا تھا کہ مردار چیزوں میں سے کونسی چیز یا یہ کہ اس کی کونسی مقدار ایسی ہے جس کو کھانا ہمارے لئے حلال ہے لیکن حقیقت میں نہ تو سائل کا مقصد یہ تھا اور نہ جواب اس کا دیا گیا ہے بلکہ مقصود یہی ہے جو اوپر ذکر کیا گیا یعنی حالت اضطرار کے بارے میں سوال کرنا چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب بھی اسی کے بارے میں دیا ۔علاوہ ازیں یہ عبارت ما یحل لنا المیتۃ کہ جس سے مردار کے بارے میں سوال کرنا معلوم ہوتا ہے، ابوداؤد کی ہے، لیکن طبرانی وغیرہ نے اس روایت کو جس طرح نقل کیا ہے اس میں یہ عبارت (یحل میں یاء کے پیش کے ساتھ ) یوں ہے ما یحل لنا المیتۃ یعنی وہ کون سی حالت ہو جو ہمارے لئے مردار کے کھانے کو حلال قرار دیتی ہے ! یہ عبارت سائل کے اصل مقصود کو زیادہ صاف اسلوب میں واضح کرتی ہے ۔ " تم لوگوں کو کھانا کس مقدار میں ملتا ہے ؟" اس سوال کا مقصد یہ تھا کہ دو صورتیں ہو سکتی ہیں ایک تو یہ کہ تمہیں غذا کے نام پر کوئی چیز بھی کسی بھی مقدار میں میسر نہ ہو، اس صورت میں کوئی الجھاؤ ہی نہیں ہے، جب پیٹ میں ڈالنے کے لئے کوئی بھی چیز کسی بھی مقدار میں میسر نہ ہو تو " حالت اضطرار " بالکل طور پر متحقق ہو جاتی ہے، دوسری صورت یہ ہے کہ غذا کے نام پر کوئی نہ کوئی چیز کسی نہ کسی مقدار میں تمہیں میسر ہو اس صورت میں دیکھنا ہو گا کہ اس مقدار کی نوعیت کیا ہے کہ اس کے مطابق حالت اضطرار کے بارے میں فیصلہ ہو گا لہٰذا تم بتاؤ کہ اگر تمہیں کھانے کی قسم سے کوئی چیز دستیاب ہوتی ہے اس کی مقدار کیا ہے، تاکہ اس مقدار کو معلوم کر کے یہ اندازہ کیا جا سکے کہ اس کے ذریعہ تمہارے پیٹ کو کتنا سہارا مل سکتا ہے اور تمہاری بھوک، اضطرار کی حد کو پہنچی ہے یا نہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سوال کرتے وقت " مخاطب کے لئے جمع " کا صیغہ استعمال کر کے گویا جماعت کو مخاطب کیا جب کہ سوال کرنے والے وہی ایک شخص (یعنی فجیع عامری ) تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو حکم بیان کرنا چاہتے تھے وہ اگرچہ ایک شخص کے سوال کے پیش نظر تھا مگر حقیقت میں اس کا تعلق سب ہی لوگوں سے تھا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح اس حکم کی عمومی حیثیت کو واضح فرمایا یہی وجہ ہے کہ فجیع بھی اپنے جواب میں جمع کا صیغہ لائے یعنی یوں کہا کہ " ہم نے عرض کیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الخ " " نصطبح " کا مادہ اشتقاق " صبوح" ہے صبح کے معنی صبح کے کھانے پینے " کے ہیں اسی طرح " نغتبق " کا مادہ اشتقاق " غبوق " ہے جس کے معنی شام کے کھانے پینے " کے ہیں یہاں روایت میں ان دونوں الفاظ سے مراد صبح و شام ایک ایک پیالہ دودھ پینا لیا گیا ہے جیسا کہ حدیث کے ایک راوی ابونعیم نے حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ سے یہ وضاحت نقل کی ہے ، اور ہو سکتا ہے کہ ابونعیم کی نقل کردہ وضاحت حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ ہی سے سماعت پر مبنی ہو یا دوسری روایتوں میں بھی یہ وضاحت منقول ہو، بہر صورت راوی کی یہ وضاحت مستند بھی ہے اور لائق اعتبار بھی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا " اپنے باپ کی قسم کھانا " بظاہر ایک تعجب خیز امر ہے جس کی تاویل یہ کی جائے گی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قسم کھانا اصل میں اس وقت کا واقعہ ہے جب کہ غیر اللہ کی قسم کھانے کی ممانعت نازل نہیں ہوئی تھی، یا یہ کہ پہلے اہل عرب عام طور پر چونکہ اسی قسم کی قسمیں کھایا کرتے تھے اور ایسی قسموں کے الفاظ ان کی زبان پر چڑھے ہوئے تھے اس لئے اس عادت کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے بھی یہ قسم اضطرارًا (یعنی بلا قصد و ارادہ ) نکل گئی ۔ " آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صورت میں ان کے لئے مردار کو حلال قرار دیا ۔" اس صورت " سے مراد صبح و شام ایک ایک پیالہ دودھ پینے کی صورت ہے یعنی گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ غذا کی اتنی تھوڑی سی مقدار تم لوگوں کو یقینا کافی نہیں ہو گی اور تم سب بھوکے رہے ہو گئے اس لئے یہ صورت حالت اضطرار کی ہے جس میں مردار کھانا حلال ہے لہٰذا تم مجبورا مردار بھی کھا کر اپنی جان بچا سکتے ہو ۔
-
وعن أبي واقد الليثي أن رجلا قال : يا رسول الله إنا نكون بأرض فتصيبنا بها المخصمة فمتى يحل لنا الميتة ؟ قال : " ما لم تصطبحوا وتغتبقوا أو تحتفئوا بها بقلا فشأنكم بها " . معناه : إذا لم تجدوا صبوحا أو غبوقا ولم تجدوا بقلة تأكلونها حلت لكم الميتة . رواه الدارمي-
اور حضرت ابوواقد لیثی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ایک شخص نے عرض کیا " یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم ') ہم (کبھی ایسی زمین میں (یعنی ایسی جگہ پہنچ جاتے ) ہیں کہ (یہاں ہمیں کھانا کو کچھ نہیں ملتا جس کی وجہ سے ) ہم وہاں مخمصہ (بھوک ) کی حالت میں مبتلا ہو جاتے ہیں، اس صورت میں مردار کھانا ہمارے لئے کب حلال ہو جاتا ہے ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کہ تم صبح تک یا شام تک (کھانے پینے کی کوئی چیز ) نہ پاؤ یا اس زمین (یعنی اس جگہ کہ جہاں تم ہو ) تو تمہاری حالت مردار سے متعلق ہو گی یعنی ایسی صورت پیش آنے پر مردار کھانا تمہارے لئے حلال ہو گا (اب اس کے بعد راوی حدیث کا ما حصل بیان کرتے ہیں کہ ) اس ارشاد گرامی صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم دن بھر میں اور رات بھر میں کھانے پینے کی کوئی چیز نہ پاؤ اسی طرح تمہیں ترکاری کی قسم سے بھی کوئی چیز (یہاں تک کہ گھاس اور درخت کے پتے بھی ) میسر نہ ہوں جس کو تم کھا سکو (اور اپنی جان بچا سکو ) تو اس صورت میں تمہارے لئے مردار حلال ہو گا ۔" (دارمی ) تشریح دونوں حدیثوں میں بظاہر تعارض محسوس ہوتا ہے کیوں کہ پہلی حدیث میں تو صبح و شام کو دودھ ملنے کی صورت کو بھی بھوک اور مخمصہ یعنی اضطرار کی حالت پر محمول کیا اور مردار کھانے کو مباح قرار دیا جب کہ اس دوسری حدیث میں حالت اضطرار کے پائے جانے کو اس امر کے ساتھ مشروط کیا کہ صبح و شام تک کھانے پینے کی کوئی بھی چیز میسر نہ ہو بلکہ اس سے بھی زیادہ اس دائرے کو اتنا تنگ کیا کہ اگر ترکاری و سبزی اور اس کی مانند چیزیں جیسے گھاس اور درخت کے پتے وغیرہ ہی مہیا ہو جائیں اور ان کو پیٹ میں ڈالا جا سکے تو اس صورت میں حالت اضطرار متحقق نہیں ہو گی اور مردار کھانا مباح نہیں ہو گا ۔ ان احادیث کے باہمی تعارض و اختلاف ہی کی بنا پر علماء کے مسلک و اقوال میں بھی اختلاف پیدا ہوا ہے ، حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک تو یہ ہے کہ سدرمق یعنی جان بچانے کی خاطر از قسم مردار کوئی چیز کھانا اس صورت میں حلال ہو گا جب کہ بھوک کی وجہ سے جان کی ہلاکت کا خوف پیدا ہو جائے، اور اسی قدر کھانا حلال ہو گا جس سے بس جان بچ جائے ۔ حضرت امام شافعی کا ایک قول بھی یہی ہے، یہ مسلک و قول بظاہر " سختی و تنگی " پر محمول ہے، لیکن حقیقت میں احتیاط و تقویٰ اسی میں ہے ۔ اس کے برخلاف حضرت امام مالک، حضرت امام احمد ، اور ایک قول کے مطابق حضرت امام شافعی، کا مسلک یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اتنی مقدار میں کھانا نہ پائے جس سے وہ سیر ہو جائے اور اس کی طبعی خواہش حاجت مند و متقاضی ہو تو اس کے لئے مردار کھانا حلال ہو گا، تاآنکہ وہ اپنی حاجت طبع پوری کرے ، یعنی وہ سیر ہو جائے، اور اس مسلک میں زیادہ نرمی و آسانی ہے ۔ حاصل یہ کہ حالت ، اضطرار میں از قسم مردار کوئی چیز کھانے کے سلسلے میں حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک تو سدرمق کا اعتبار ہے، کہ مضطر بس اتنا مردار کھا سکتا ہے جس سے جان بچی رہے جب کہ دوسرے آئمہ کے نزدیک حصول قوت یعنی شکم سیر ہو کر کھانے کا اعتبار ہے ان ائمہ کی دلیل پہلی حدیث ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حالت میں مردار کھانے کو حلال قرار دیا ، جب کہ سائل کو ایک پیالہ دودھ دن میں، اور ایک پیالہ دودھ رات میں میسر ہوتا تھا اور دن و رات میں ملنے والا ایک ایک پیالہ دودھ بلا شک و شبہ سدرمق یعنی جان بچانے کی حد تک کافی ہو سکتا ہے ، اگرچہ اس کے ذریعہ شکم سیری نہ ہو سکتی ہو، لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ اضطرار کی حد کی وجہ سے مردار کھانا مباح ہو جاتا ہے اصل میں شکم سیری کا حاصل نہ ہونا ہے اور بقدر حصول قوت مردار کھانا حلال ہے ۔ ان ائمہ کے برخلاف حضرت امام اعظم ابوحنیفہ ) کے نزدیک جہاں تک پہلی حدیث کا تعلق ہے کہ جس سے دوسرے آئمہ استدلال کرتے ہیں اس کے بارے میں ان کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ اس حدیث میں صبح و شام ایک ایک پیالہ دودھ پوری قوم کو ملتا تھا، نہ کہ ایک ایک شخص ایک ایک پیالہ دودھ پاتا تھا، چنانچہ لفظ طعامکم میں جمع کا صیغہ اس بات کی واضح دلیل ہے ۔ اسی طرح حضرت فجیع عامری کا سوال کرنا محض اپنی ذات کی طرف سے نہیں تھا ، بلکہ درحقیقت انہوں نے اپنی پوری قوم کی طرف سے سوال کیا تھا اسی لئے انہوں نے یہ الفاظ کہے ما یحل لنا (ہمارے لئے مردار میں سے کیا حلال ہے ) انہوں نے یہ نہیں پوچھا کہ میرے لئے مردار میں سے کیا حلال ہے ؟ اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک کثیر جماعت کے لئے محض ایک پیالہ دودھ سدرمق یعنی جان بچانے کے لئے بھی ہرگز کافی نہیں ہو سکتا، اور نہ وہ کسی ایک کی بھی بھوک کو ذرا برابر بھی ختم کرنے میں مدد گار بن سکتا ہے ، ہاں اگر ہر ایک کو ایک ایک پیالہ دودھ ملے تو وہ بے شک جان بچانے کے بقدر غذا بن سکتا ہے ۔
-