حالت احرام میں نکاح کرنے کرانے کا مسئلہ

وعن عثمان قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " لا ينكح المحرم ولا ينكح ولا يخطب " . رواه مسلم-
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ یہ مناسب نہیں ہے کہ محرم نکاح کرے اسی طرح (ولایۃ یا وکالۃ) نکاح کرانا اور منگنی کرنا بھی مناسب نہیں ہے۔ (مسلم) تشریح حضرت امام شافعی اور اکثر علماء کے نزدیک خود اپنا نکاح کرنے یا کسی کا نکاح کرانے کی ممانعت مکروہ تحریمی کے طور پر ہے اور منگنی کرنے کی ممانعت مکروہ تنزیہی کے طور پر ہے۔ چنانچہ ان حضرات کے نزدیک حالت احرام میں نہ تو خود اپنا نکاح کرنا درست ہے اور نہ کسی کا نکاح کرانا جائز ہے۔ لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے ہاں تینوں کی ممانعت صرف مکروہ تنزیہی کے طور پر ہے، ان کی دلیل یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے احرام کی حالت میں حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے اپنا نکاح کیا تھا۔
-
وعن ابن عباس : أن النبي صلى الله عليه و سلم تزوج ميمونة وهو محرم-
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے اس حالت میں نکاح کیا کہ آپ (عمرۃ القضا کا ) احرام باندھے ہوئے تھے۔ (بخاری ومسلم)
-
وعن يزيد بن الأصم ابن أخت ميمونة عن ميمونة أن رسول الله صلى الله عليه و سلم تزوجها وهو حلال . رواه مسلم قال الشيخ الإمام يحيى السنة رحمه الله : والأكثرون على أنه تزوجها حلالا وظهر أمر تزويجها وهو محرم ثم بنى بها وهو حلال بسرف في طريق مكة-
حضرت یزید بن اصم (تابعی) جو ام المؤمنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے ہیں اپنی خالہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان (حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا) سے جب نکاح کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم احرام کی حالت میں نہیں تھے۔ (مسلم) حضرت امام محی السنہ رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اکثر علماء (یعنی حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے علاوہ ) اس بات کے قائل ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حالت احرام میں نہیں تھے۔ ہاں حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نکاح کا اظہار عام اس وقت ہوا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم احرام کی حالت میں تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ شب زفاف مقام سرف ہی میں جو مکہ کے راستہ میں واقع ہے اس وقت گزاری جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم احرام کھول چکے تھے۔ تشریح مظاہر حق جدید کی زیر نظر جلد میں ایک موقع پر یہ بتایا جا چکا ہے کہ " سرف" ایک مقام کا نام ہے جو مکہ مکرمہ سے تقریبا چھ میل اور مقام تنعیم سے جانب شمال تین یا چار میل کے فاصلہ پر واقع ہے اسی موقع پر ایک تاریخی اتفاق بھی ذکر کیا گیا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کا نکاح بھی سرف میں ہوا (جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عمرۃ القضاء کے لئے مکہ تشریف لا رہے تھے اور اس وقت حالت احرام میں تھے) اور ان کی شب زفاف بھی یہیں گزری (جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عمرہ سے فارغ ہو کر مدینہ واپس ہو رہے تھے) اور پھر بعد میں ان کا انتقال بھی یہیں ہوا۔ بہرکیف یہ حدیث جسے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے حضرت یزید نے روایت کیا ہے ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی اس روایت کے بالکل برخلاف ہے جو اس سے پہلے نقل کی گئی، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت تو اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے حالت احرام میں نکاح کیا تھا جب کہ حضرت یزید کی یہ روایت اس پر دلالت کرتی ہے کہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نکاح اس وقت ہوا تھا جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حالت احرام میں نہیں تھے۔ اس طرح ان دونوں روایتوں میں تعارض ہو گیا ہے، چنانچہ حنفیہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کو ترجیح دیتے ہیں اول تو اس وجہ سے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کو اپنے علم و فضل ، قوت حافظہ، فقہی بصیرت اور اپنی شان مرتبت کے اعتبار سے حضرت یزید پر کہیں زیادہ برتری حاصل ہے، دوسرے یہ کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کو بخاری و مسلم دونوں نے نقل کیا ہے جب کہ حضرت یزید کی روایت کو صرف مسلم نے نقل کیا ہے۔ اب رہی یہ بات حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی روایت (چار ) میں احرام کی حالت میں نکاح کرنے کرانے کی ممانعت منقول ہے ؟ تو اس کے بارہ میں حنفی علماء لکھتے ہیں کہ اس ممانعت سے یہ مراد ہی نہیں ہے کہ نکاح کرنا کرانا قطعاً ناجائز یا حرام ہے، بلکہ اس کا مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ محرم چونکہ ایک عبادت میں مشغول رہتا ہے اس لئے اس کی شان اور اس کے حال کے مناسب یہ نہیں ہے کہ وہ نکاح کرے یا کسی کا کا نکاح کرائے۔ چنانچہ اس حدیث کی تشریح میں یہی وضاحت کی گئی تھی کہ یہاں اس ممانعت کا مطلب مکروہ تنزیہی ہے۔ حضرت امام محی السنۃ کے یہ الفاظ وظہر امر تزویجہا وہو محرم (حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ آپ کے نکاح کا اظہار عام اس وقت ہوا جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم احرام کی حالت میں تھے۔ دراصل شوافع کی طرف سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی اس روایت کہ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہ سے اس حالت میں نکاح کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم احرام باندھے ہوئے تھے۔ کی تاویل ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نکاح تو اس وقت ہی کیا تھا جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حالت احرام میں نہیں تھے ہاں اس نکاح کا علم لوگوں کو اس وقت ہوا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے احرام باندھ لیا تھا۔ گویا امام محی السنۃ یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کو بھی اس نکاح کا علم اس وقت ہوا جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حالت احرام میں تھے اس لئے وہ یہی سمجھے کہ نکاح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حالت احرام ہی میں کیا ہے حالانکہ شوافع کی طرف سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کی یہ تاویل تکلف سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتی۔
-