جھاڑ پھونک کے ذریعہ علاج کرنے کی اجازت

وعن أنس قال رخص رسول الله صلى الله عليه وسلم في الرقية من العين والحمة والنملة . رواه مسلم . ( متفق عليه )-
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جھاڑ پھونک کے ذریعہ نظر بد، دنک اور نملہ کا علاج کرنے کی اجازت دی ہے ۔" (مسلم ) تشریح " افسوں" سے مراد وہ جھاڑ پھونک ہے، جس میں حصول شفا کے لئے منقول دعائیں اور قرآنی آیات پڑھی جاتی ہیں ،" نظر بد" ایک حقیقت ہے جس کو بعض حضرات نے " زہر ' ' سے تعبیر کیا ہے ان حضرات کا کہنا ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے بچھو کے ڈنک اور سانپ کے منہ میں زہر رکھا ہے اسی طرح بعض آدمیوں کی آنکھوں میں بھی زہر رکھا ہے کہ ان کی نظر جس چیز کو بھی لگ جاتی ہے خواہ وہ انسان ہو یا مال و اسباب، زمین جائیداد ہو یا کھیتی و باغات اور جانور ہو ، اس کو کھا جاتی ہے ۔چنانچہ نظر بد کے دفیعہ کے لئے دعا و تعویز اور جھاڑ پھونک نہ صرف یہ کہ جائز ہے بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مقصد کے لئے مختلف دعائیں بھی تعلیم فرمائی ہیں جو دعاؤں کے باب میں گزر چکی ہیں ۔ " ڈنک " سے مراد زہریلہ ڈنک ہے جیسے بچھو کا ڈنک، سانپ کا ڈسنا بھی اسی کے حکم میں ہے اگر کسی شخص کو بچھو ڈنک مار دے یا سانپ ڈس لے تو اس کا زہر اتارنے کا بہترین ذر یعہ جھاڑ پھونک ہے ۔ " نملہ " اصل میں چیونٹی کو کہتے ہیں لیکن یہاں وہ پھوڑا مراد ہے جو آدمی کے پہلو میں ہو جایا کرتا ہے، کبھی یہ پھوڑا چھوٹی چھوٹی پھنسیوں کی صورت میں بھی ہوتا ہے جو پسلی کے اوپر نکل آتی ہیں ۔ نملہ پھوڑے میں آدمی کو ایسا محسوس ہوتا ہے ۔ جیسے چیوٹیاں رینگ رہی ہوں اور غالبا اسی مناسبت سے اس پھوڑے کو نملہ کہا گیا ہے اور اگر نملہ چھوٹی چھوٹی پھنسیوں کی صورت میں ہو تو اس میں وجہ مشابہت یہ ہو گی کہ وہ پھنسیاں چیونٹیوں کی طرح پھیلی اور بکھری ہوتی ہیں ۔ واضح رہے کہ جھاڑ پھونک کے ذریعہ ہر مرض کا علاج کرنا جائز ہے ، اس صورت میں خاص طور پر ان تین چیزوں کا ذکر محض اس لئے کیا گیا ہے کہ دوسرے امراض کی تہ نسبت ان تینوں میں جھاڑ پھونک کا اثر زیادہ اچھا ہوتا ہے اسی طرح جس روایت میں بطور حصر یہ فرمایا گیا ہے کہ جھاڑ پھونک صرف ان تین چیزوں میں جائز ہے اس کی تاویل بھی یہی ہو گی علاوہ ازیں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں اہل عرب جن الفاظ و کلمات کے ذریعہ جھاڑ پھونک کیا کرتے تھے ان سے اجتناب کی خاطر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتداء اسلام میں مسلمانوں کو جھاڑ پھونک کرنے سے منع فرما دیا تھا پھر جب ان تینوں چیزوں میں جھاڑ پھونک کی اہمیت اور لوگوں کو اس سے حاصل ہونے والے فائدے کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تین چیزوں میں منتر پڑھ کر پھونکنے کی اجازت دیدی بشرطیکہ اس منتر میں مشرکانہ الفاظ و کلمات استعمال نہ ہوں یہاں تک کہ بعد میں اس اجازت کو عام کر دیا گیا کہ کسی بھی مرض میں منقول دعاؤں اور قرآنی آیات کے ذریعہ جھاڑ پھونک کی جا سکتی ہے
-
وعن عائشة قالت أمر النبي صلى الله عليه وسلم أن نسترقي من العين . ( متفق عليه )-
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم نظر بد کا اثر دور کرنے کے لئے جھاڑ پھونک کرائیں ۔" (بخاری ومسلم )
-
وعن أم سلمة أن النبي صلى الله عليه وسلم رأى في بيتها جارية في وجهها سفعة يعني صفرة فقال استرقوا لها فإن بها النظرة .-
اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے گھر میں ایک لڑکی کو دیکھا جس کے چہرے پر زردی چھائی ہوئی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس پر منتر پڑھواؤ ۔ یعنی اس کی جھاڑ پھونک کراؤ ۔ کیونکہ اس کو نظر لگی ہے ۔" (بخاری ومسلم ) تشریح حدیث کے ظاہری مفہوم سے تو عمومیت ظاہر ہوتی ہے کہ اس لڑکی کو نظر لگ گئی تھی خواہ کسی انسان کی نظر لگی ہو یا کسی جن کی لیکن شارحین نے وضاحت کی ہے کہ اس لڑکی پر کسی جن کی نظر بد کا اثر تھا ۔ جنات کی نظر برچھے کی نوک سے بھی زیادہ تیز ہوتی ہے ۔
-
وعن جابر قال نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الرقى فجاء آل عمرو بن حزم فقالوا يا رسول الله إنه كانت عندنا رقية نرقي بها من العقرب وأنت نهيت عن الرقى فعرضوها عليه فقال ما أرى بها بأسا من استطاع منكم أن ينفع أخاه فلينفعه . رواه مسلم .-
اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منتر پڑھنے اور پھونکنے سے منع فرما دیا تو عمرو بن حزم کے خاندان کے لوگ (جو منتروں کے ذریعہ جھاڑ پھونک کرتے تھے ) حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ہمارے پاس ایک منتر ہے جس کو ہم بچھو کے کاٹے پر پڑھا کرتے تھے اب آپ نے منتروں سے منع فرما دیا ہے اس کے بعد انہوں نے منتر کو پڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا (تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس منتر کو درست یا غلط ہونے کا فیصلہ فرمائیں ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (منتر کو سن کر) فرمایا کہ میں اس منتر میں کوئی حرج نہیں دیکھتا تم میں سے جو شخص اپنے بھائی کو نفع پہنچا سکے تو وہ ضرور نفع پہنچائے خواہ جھاڑ پھونک کے ذریعہ اور خواہ کسی اور طرح سے بشرطیکہ اس میں کوئی خلاف شرع بات نہ ہو ۔" (بخاری ومسلم )
-
وعن عوف بن مالك الأشجعي قال كنا نرقي في الجاهلية فقلنا يا رسول الله كيف ترى في ذلك ؟ فقال اعرضوا علي رقاكم لا بأس بالرقى ما لم يكن فيه شرك . رواه مسلم .-
اور حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم زمانہ جاہلیت میں جھاڑ پھونک کے ذریعہ منتر پڑھا کرتے تھے (جب اسلام کا زمانہ آیا تو ) ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) ان منتروں کے بارے میں کیا حکم فرماتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم ان منتروں کو پڑھ کر مجھ کو سناؤ جب تک ان میں شرک نہ ہو میں کوئی حرج نہیں دیکھتا ۔" (مسلم ) تشریح جب تک ان میں شرک نہ ہو " کا مطلب یہ ہے کہ جس منتر و افسوں میں جن و شیاطین کے اسماء اور ان سے استعانت نہ ہو اور ان کے مفہوم و معنی ایسے نہ ہوں جن سے کفر لازم آتا ہے تو ان کے ذریعہ جھاڑ پھونک کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔ اسی لئے علماء نے کہا ہے کہ ایسے الفاظ و کلمات پر مشتمل منتر و افسوں کے ذریعہ جھاڑ پھونک جائز نہیں ہے ۔ جن کے مفہوم و معانی معلوم نہ ہوں البتہ بعض ایسے منتر جن کے الفاظ و کلمات صحیح روایت میں شارع سے منقول ہیں اور ان کے مفہوم و معانی معلوم نہیں ہیں ان کے ذریعہ جھاڑ پھونک کرنا جائز ہے ۔ واضح رہے کہ جس طرح شیطان ازل ہی سے انسانی عداوت میں مبتلا ہے اسی طرح جنات بھی بالطبع انسان کے ساتھ عداوت رکھتے ہیں اور اس اعتبار سے جنات و شیاطین آپس میں ایک دوسرے کے دوست و رفیق ہوتے ہیں ۔چنانچہ جب کسی انسان پر جنات کا سایہ و اثر ہوتا ہے اور اس سایہ و اثر کو دور کرنے کے لئے ایسے منتر و افسوں پڑھے جاتے ہیں جن میں شیاطین کے نام اور ان سے استعانت ہوتی ہے تو جنات اس منتر و افسوں کو قبول کر کے اس انسان کا پیچھا چھوڑ دیتے ہیں اسی طرح بعض اوقات مارگزیدہ (سانپ کا ڈسا ہوا ) شخص اصل میں جنات کے زیر اثر ہوتا ہے ، بایں طور پر کہ کوئی شریر جن سانپ کی صورت اختیار کر کے کسی انسان کو ڈس لیتا ہے لیکن لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ اس کو درحقیقت سانپ نے کاٹ کھایا ہے ۔ جب ایسے شخض پر منتر پڑھے جاتے ہیں جن میں شیاطین کے نام ہوتے ہیں تو وہ زہر جو حقیقت میں جن کا اثر ہوتا ہے اس شخص کے بدن سے زائل ہو جاتا ہے اس طرح گویا جنات وشیاطین دونوں انسان کی گمراہی کا ذریعہ بنتے ہیں ، چنانچہ علماء امت کا اس بات پر اجماع و اتفاق ہے کہ کتاب اللہ اور اسماء وصفات الہٰی کے بغیر افسوں ومنتر پڑھنا اور جھاڑ پھونک کرنا جائز نہیں ہے ، سب سے زیادہ مہتم بالشان " خود قرآن مجید " ہے کہ اس کا ہر ہر فقرہ اور ہر ہر لفظ کائنات انسانی کے لئے تاثیر وشفا اور خیر و برکت کا خزانہ ہے اور جن کا فائدہ یقینی ہے اور پھر اس میں بھی بعض سورتیں اور آیتیں جھاڑ پھونک کے لئے زیادہ فضیلت رکھتی ہیں جیسے سورت فاتحہ، معوذتین آیت الکرسی اور وہ آیات کریمہ جو اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرنے کے مفہوم پر مشتمل ہیں ، اسی طرح وہ دعائیں اور عملیات بھی افضل ہیں جو احادیث صحیحہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول و ثابت ہیں ۔ سفر السعادۃ کے مصنف نے لکھا ہے کہ حدیث شریف میں منقول ہے کہ جب کوئی شخص اپنے کسی ایسے مال و اسباب وغیرہ یا بچے پر نظر ڈالے جو اس کو اچھا لگتا ہو تو چاہئے کہ ماشاء اللہ لاقوۃ الا باللہ کہے (تاکہ اس مال یا بچے کو نظر نہ لگے ) اسی حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے ایک بہت ہی خوبصورت بچے کو دیکھا تو فرمایا کہ اس کی تھوڑی کے گڑھے میں ذرا سی سیاہی لگا دو ، تاکہ اس کو نظر نہ لگے ۔
-