جمعہ کے روز نماز مغرب کی قراء ت

وَعَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ قَالَ کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم یَقْرَاُ فِیْ صَلَاۃِ الْمَغْرِبِ لَیْلَۃَ الجُمُعَۃِ قُلْ یَا اَیُّھَا الْکٰفِرُوْنَ وَقُلْ ھُوَ اﷲُ اَحَدٌ رَوَاہُ فِیْ شَرْحِ السُّنَّۃِ وَرَوَاہُ ابْنُ مَاجَۃَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ اِلَّا اَنَّہُ لَمْ یَذْکُرْ لَیْلَۃَ الجُمُعَۃِ۔-
" اور حضرت جابر ابن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے روز مغرب کی نماز میں قل یا ایھا الکافرون اور قال ھو اللہ احد پڑھا کرتے تھے یہ حدیث شرح السنتہ میں منقول ہے اور ابن ماجہ نے یہ حدیث عبداللہ ابن عمر سے رضی اللہ تعالیٰ عنہ نقل کی ہے لیکن اس میں " لیلۃ الجمعۃ" کے الفاظ نہیں ہیں۔" تشریح حدیث میں مغرب سے مغرب کی فرض نماز مراد ہے یعنی آپ جمعہ کے روز مغرب کی فرض نماز میں یہ دونوں سورتیں پڑھا کرتے تھے اور یہ بھی احتمال ہے کہ نماز مغرب سے مغرب کی سنتیں مراد ہوں۔ وا اللہ اعلم ابن حبان نے قل ھو اللہ کے الفاظ کے بعد یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ وفی العشاء سورت الجمعۃ والمنافقون یعنی شب جمعہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز میں سورت جمعہ اور سورت منافقون پڑھا کرتے تھے۔ ابن مالک نے کہا ہے کہ " یہ حدیث یا اسی قسم کی دوسری حدیث دوام پر محمول نہیں ہیں یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ہمیشہ کا معمول نہیں تھا۔ بلکہ کبھی آپ دوسری سورتیں پڑھا کرتے تھے اور کبھی ان سورتوں کی قرات کرتے تھے تاکہ لوگ یہ جان لیں کہ ہر ایک سورت کو پڑھنا جائز ہے۔ کسی خاص سورت کو پڑھنا ضروری نہیں ہے۔
-
وَعَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ مَا اُحْصِیْ مَا سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم یَقْرَاُ فِی الرَّکْعَتَیْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ وَفِی الرَّکْعَتَیْنِ قَبْلَ صَلَاۃَ الْفَجْرِ بِقُلْ یَااَیُّھَا الْکَافِرُوْنَ وَقُلْ ھُوَ اﷲُ اَحَدٌ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَرَوَاہُ ابْنُ مَاجَۃَ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ اِلَّا اَنَّہُ لَمْ یَذْکُرْ َبعْدَ الْمَغْرِبْ۔-
" اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں شمار نہیں کر سکتا کہ میں نے کتنی مرتبے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی مغرب کی نماز کے بعد اور فجر کی نماز سے پہلے دونوں سنتوں میں قل یا ایھا الکافرون اور قل ھو اللہ احد پڑھتے سنا ہے اس حدیث کو ابن ماجہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کیا مگر ان کی روایت میں " بعد المغرب" کے الفاظ نہیں ہیں۔" تشریح مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مغرب کی دونوں سنتوں اور فجر کی دونوں سنتوں میں قل یا ایھا الکافرون اور قل ھو اللہ احد دونوں سورتیں اتنی کثرت سے پڑھا کرتے تھے کہ میں ان کا شمار نہیں کر سکتا۔
-
وَعَنْ سُلَیْمَانَ ابْنِ یَسَارٍ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ مَا صَلَّیْتُ وَرَاءَ اَحَدٍ اَشْبَہَ صَلَاۃٍ بِرَ سُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم مِنْ فُلَانٍ قَالَ سُلَیْمَانُ صَلَّیْتُ خَلْفَہ، فَکَانَ یُطِیْلُ الرَّکْعَتَیْنِ الْاُوْلَیَیْنِ مِنَ الظُّھْرِ وَ یُخَفِّفُ الْاُ خْرَیَیْنِ وَیُخَفِّفُ الْعَصْرَ وَیَقْرَأُ فِی الْمَغْرِبِ بِقِصَارِ الْمُفَصَّلِ وَیَقْرَأُ فِی الْعِشَاءِ بِوَسْطِ المُصَفَّلِ وَیَقْرَأُ فِی الصُّبْحِ بِطِوَالِ الْمُفَصَّلِ رَوَاہُ النِّسَائِیُّ وَرَوَی ابْنُ مَاجَۃَ اِلٰی وَیُخَفِّفُ الْعَصْرَ۔-
" اور حضرت سلیمان ابن یسار رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ (تابعی) فرماتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے کسی آدمی کے پیچھے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے مشابہ نماز نہیں پڑھی مگر فلاں آدمی کے پیچھے سلیمان فرماتے ہیں کہ میں نے بھی اس آدمی کے پیچھے نماز پڑھی ہے ۔ وہ ظہر کی پہلی دونوں رکعتوں کو طویل پڑھتے تھے اور آخری دونوں رکعتوں کو ہلکی پڑھتے تھے، عصر کی نماز میں تخفیف کرتے تھے۔ مغرب کی نماز میں قصار مفصل اور عشاء میں اوساط مفصل اور فجر کی نماز میں طوال مفصل پڑھا کرتے تھے اور ابن ماجہ نے اس روایت کو نقل کیا ہے مگر ان کی روایت صرف و یخفف العصر تک ہے" (سنن نسائی ) تشریح " فلاں آدمی" کے تعین کے سلسلے میں بعض حضرات تو یہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی ذات مراد ہے اور بعض حضرات کی رائے ہے " فلاں آدمی" سے مراد وہ آدمی ہے جس کو خلیفہ مروان نے مدینہ میں حاکم مقرر کر رکھا تھا۔ اس حدیث میں ظہر اور عصر کی قرات کا اجمالی طور پر ذکر کیا ہے یہ نہیں کہا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز میں طوال مفصل پڑھتے تھے۔ بلکہ صرف اتنا ذکر کیا گیا ہے کہ ظہر کی نماز میں طویل قرات کرتے تھے۔ اسی طرح عصر کی نماز کے بارے بھی وضاحت نہیں کی گئی ہے کہ اس میں قصار مفصل پڑھتے تھے یا اوساط مفصل؟ صرف اتنا ذکر کیا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز میں تخفیف کرتے تھے بہر حال نمازوں کی قرات کے سلسلے میں فقہاء نے ایک اصول و نہج بنایا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ نمازوں میں قرات کرنے کے سلسلے میں عملی طور پر کوئی خلجان واقع نہ ہو اور وہ یہ کہ فجر اور ظہر کی نماز میں طوال مفصل و عصر اور عشاء میں اوساط مفصل اور مغرب قصار مفصل پڑھی جائیں۔ اس مسئلہ کی وضاحت اس سے پہلے بھی ایک حدیث کی تشریح کے ضمن میں کی جا چکی ہے اور وہاں اس کے اصطلاحی ناموں کی تعریف بھی کی گئی ہے چنانچہ ایک مرتبہ پھر سمجھ لیجئے کہ فقہاء کی اصطلاح میں " مفصل" سے سورت حجرات سے سورت والناس تک کی سورتیں مراد ہیں ان سورتوں کو مفصل اس لیے کہا گیا ہے کہ " فصل" کے معنی جدا ہونے کے ہیں چنانچہ سورت حجرات سے ان چھوٹی چھوٹی سورتوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جو ایک دوسری سے درمیان میں بسم اللہ ہونے کی وجہ سے جدا ہوتی چلی جاتی ہیں۔ پھر مفصل یعنی سورت حجرات سے سورت و الناس تک کی سورتوں کو تین درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ (١) چھوٹی سورتیں (٢) متوسط سورتین (٣) بڑی سورتیں۔ سورت حجرات سے سورت بروج تک کو طوال مفصل یعنی مفصل کی بڑی سورتیں فرماتے ہیں۔ سورت بروج سے سورت لم یکن (البینہ) تک کو او ساط مفصل یعنی مفصل کی متوسط سورتیں فرماتے ہیں۔ اور سورت لم یکن سے سورت و الناس تک کو قصار مفصل کی چھوٹی سورتیں کہتے ہیں۔
-