TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
میت پر رونے کا بیان
جس مسلمان کے تین بچے مرجائیں وہ دوزخ میں داخل نہیں ہوگا
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " لا يموت لمسلم ثلاث من الولد فيلج النار إلا تحلة القسم "-
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس مسلمان کے تین بچے اللہ کو پیارے ہو جائیں وہ دوزخ میں داخل نہیں ہو گا ہاں قسم پوری کرنے کے لیے کیا جائے گا۔ (بخاری ومسلم) تشریح حدیث کے آخری جملہ ہاں قسم پوری کرنے کے لیے جائے گا' سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد ا یت (وَاِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَا) 19۔ مریم : 71) کی طرف اشارہ ہے گویا اصل میں یہ آیت یوں ہے ا یت (وَاِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَا) 19۔ مریم : 71) یعنی خدا کی قسم! تم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں ہے جو دوزخ میں داخل نہ ہو اگرچہ وہ بجلی یا ہوا کی طرح ایک ہی لمحہ کے لیے کیوں نہ داخل ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دوزخ کے اوپر پل صراط قائم کیا جائے گا ظاہر ہے کہ اس کے اوپر سے ہر شخص گزرے گا خواہ وہ مسلمان کافر اور خواہ نیک ہو یا بد فرق صرف اتنا ہو گا کہ جو بدکار ہوں گے وہ اس کے ذریعہ ایذاء پائیں گے بایں طور کہ وہ پل صراط کے اوپر سے دوزخ میں گر پڑیں گے اور نیکوکار کوئی ایذاء نہیں پائی گے بایں طور کے وہ اس کے اوپر سے گزر کر جنت میں داخل ہو جائیں گے۔ لہٰذا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جس مسلمان کے تین بچے مر جائیں گے وہ دوزخ میں داخل کیا جائے ہاں صرف اتنے لمحہ کے لیے تو اس کا دوزخ تک جانا ممکن ہے کہ خدا کی قسم پوری ہو جائے اور وہ مختصر لمحہ بھی صرف پل صراط کے اوپر سے گزرنے کا وقفہ ہے یعنی اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ دوزخ کے اندر داخل کیا جائے گا اور عذاب پائے گا بلکہ مطلب یہ ہے کہ وہ کسی قسم کا عذاب نہیں پائے گا اور صرف پل صراط کے اوپر سے گزر جانا ہے اس آیت میں مذکور دخول دوزخ کا مصداق اور باری تعالیٰ کی قسم کے سچ اور پوری ہونے کے لیے کافی ہو گا۔ اہل عرف اپنی روزہ مرہ کی بول چال میں کہا کرتے ہیں کہ میں نے یہ کام اپنی قسم پوری کرنے کے لیے کیا یعنی اس کام کو صرف اس قدر کیا کہ اس کی وجہ سے قسم پوری ہو جائے اور ظاہر ہے کہ اس کے لیے اس کام کا ادنی ترین حصہ جو ایک قلیل ترین لمحہ میں گزر جائے کافی ہے۔
-
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم لنسوة من الأنصار : " لا يموت لإحداكن ثلاثة من الولد فتحتسبه إلا دخلت الجنة . فقال امرأة منهن : أو اثنان يا رسول الله ؟ قال : أو اثنان " . رواه مسلم وفي رواية لهما : " ثلاثة لم يبلغوا الحنث "-
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کتنی ہی انصاری عورتوں سے فرمایا تم میں سے جس عورت کے بھی تین بچے مر جائیں اور وہ عورت ثواب کی طلبگار ہو تو وہ جنت میں داخل کی جائے گی۔ یہ سن کر ان میں سے ایک عورت نے عرض کیا کہ یا دو بچے مر جائیں یعنی اس بشارت کو تین کے ساتھ خاص نہ کیجئے بلکہ یہ فرمائیے کہ تین مر جائیں یا دو مریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا (ہاں) دو بچے بھی مر جائیں تو یہ بشارت ہے (مسلم بخاری و مسلم دونوں کی ایک اور روایت میں یوں ہے کہ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ ایسے تین بچے مریں جو حد بلوغ کو نہ پہنچے ہوئے ہوں (تو یہ بشارت ہے) تشریح ثواب کی طلبگار ہو۔ کا مطلب یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی عورت کے تین بچوں کو اپنے پاس بلا لے تو وہ ان کے مر جانے پر نوحہ اور جزع فزع نہ کرے بلکہ صبر و شکر کا دامن پکڑے رہے اور انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھ کر خدا کی مرضی اور اس کی مصلحت کے آگے سر جھکا دے تو وہ بہشت میں داخل کی جائے گی۔ اب اس بارہ میں دونوں ہی احتمال ہیں کہ یا تو اسے ابتداء ہی میں بغیر عذاب میں مبتلا کیے ہوئے جنت میں داخل کر دیا جائے گا یا پھر یہ کہ ان بچوں کی سفارش و شفاعت کے بعد اسے جنت کی سعادت سے نوازا جائے گا۔ عورت کے عرض کرنے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد " یا دو بچے مریں" کے بارہ میں علماء لکھتے ہیں کہ جب آپ نے تین بچوں کے بارہ میں ارشاد فرمایا تو عورتوں نے تین کی تخصیص کو ختم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو بارگاہ صمدیت کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توجہ کے اثر سے رحمت خداوندی نے اس خواہش کو قبول فرما کر فورا ہی بذریعہ وحی مطلع کر دیا کہ اگر دو بچے بھی مر جائیں تب بھی یہ سعادت حاصل ہو گی یا پھر یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بارہ میں بطور خاص دعا مانگی اور حق تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ دعا قبول ہو گئی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورتوں کو وہ بشارت بھی سنا دی۔ دوسری روایت میں غیر بالغ کی قید اس لیے لگائی گئی ہے کہ چھوٹے بچوں سے عورتوں کو بہت زیادہ محبت ہوتی ہے بڑے بچوں کی بہ نسبت چھوٹے بچے اپنی ماں سے زیادہ قریب اور محبوب ہوتے ہیں اس لیے ان کے مرنے سے طبعی طور پرعورت کو بہت زیادہ رنج و غم ہوتا ہے۔
-